0
Monday 11 Nov 2024 18:33

تھا جو ناچیز بڑی چیز ہوا

تھا جو ناچیز بڑی چیز ہوا
تحریر: سید تنویر حیدر
          
کہاں امریکہ اور کہاں یمن؟ بظاہر ان دونوں میں کوئی تقابل نہیں! کوئی مقابلہ نہیں! کیا وجہ ہے کہ ملکوں میں بظاہر ایک چھوٹے سے قد کا یمن، چنگھاڑیں مارتے ہوئے امریکہ جیسے ہاتھی کے مقابلے میں اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑا ہے اور ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔  سوال یہ ہے کہ وہ کون سی حکمت عملی اور کون سے ٹرمپ کارڈز ہیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے یمن، امریکہ اور اسرائیل کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ یمن اپنے حریفوں کے مقابلے میں جن محاذوں پر سرگرم عمل ہے ان میں اس کا پہلا محاذ صیہونی حکومت کی اقتصادی جڑوں کو کاٹنا ہے۔ اس محاذ پر انصار اللہ کی قیادت غاصب صیہونی حکومت کے خلاف اب تک کامیاب رہی ہے۔ یمنیوں نے عملی طور پر ثابت کردیا ہے کہ وہ باب المندب جیسے تزویراتی سمندری راستے کو جب بھی چاہیں بند کر سکتے ہیں اور اسے کھولنے کے لیے کوئی بڑا فوجی محاذ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔

صیہونی حکومت گزشتہ ایک سال سے امریکہ، یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا اور اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی اپنی بندرگاہوں تک آنے والے بحری جہازوں کے راستے کو دوبارہ کھلوا نہیں سکی۔ یہاں تک کہ طیارہ بردار جہاز آئزن ہاور کو بھی راستہ نہ ملا۔ یمن نے تو اس پر حملہ بھی کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب سے یمن نے آبنائے باب المندب کو مغرب کے خلاف دباو بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے، یمن کی سیکیورٹی میں اضافہ ہوا ہے اور مغربی باشندے اس آبنائے کے مکمل طور پر بند ہونے کے خوف سے اس علاقے کی طرف اپنے سفر کو کم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ یمن کے نو سالہ طویل محاصرے کے بعد ہو رہا ہے۔

سعودی عرب اور امریکہ کے علم میں اہم بات جو آئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر یمن کے خلاف دوبارہ زمینی حملہ کیا گیا تو اس بار یمنی، سعودی عرب اور یو اے ای کی تیل اور گیس کی پیداوار اور برآمدات کو اپنے میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنائیں گے۔ یمنی ڈرونز کا یہ ڈراونا خواب مغرب کو بھی چین نہیں لینے دیتا۔ امریکہ کو تیل اور گیس کے ساتھ ساتھ سمندری گزرگاہ کے لیے مغربی ایشیائی خطے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اس آبی گزرگاہ کی آمدورفت رک گئی تو مغرب کو اس کا خاصا نقصان پہنچے گا۔ یمن اپنی موجودہ پوزیشن کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی تیل کی پیداوار اور اس پیداوار کو عالمی منڈیوں تک جانے سے روک سکتا ہے۔

امریکہ کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یمن کے ہائپر سونک میزائلز، جدید ڈرونز، دور سے رہنمائی کرنے والی آبدوزیں اور خود کار تارپیڈوز آسانی سے خطے میں امریکی اڈوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ یمن اب تک ریاض، الظفرہ (سعودی عرب)، متحدہ عرب امارات، جبوتی، قطر اور یہاں تک کہ بحر ہند کے جنوب میں ڈیاگوگارشیا پر حملہ کر چکا ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں امریکہ کو جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ امریکہ محض ڈرامائی قسم کی کاروائیوں میں ملوث ہے۔جیسے صحراوں اور لاوارث قسم کے علاقوں میں بمباری کرنا وغیرہ۔ امریکہ کی مضحکہ خیز چالوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مغربی میڈیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اپنے مختلف قسم کے ہتھیاروں کی نمائش کرتا رہتا ہے۔

گزشتہ موسم سرما میں طیارہ بردار بحری جہاز آئزن ہاور کے فرار کے بعد حال ہی میں امریکہ نے میڈیا کو اپنے B-2 بمبار طیارے دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے وہ انہیں یمن پر بمباری کے لیے استعمال کرے گا۔ حالانکہ امریکہ اس سے قبل 2014ء میں شروع ہونے والی یمن کی جنگ میں B-2 ،B-1 اور B-52 طیاروں کو اندھی اور کارپٹ بیماری کے لیے بارہا استعمال کر چکا ہے۔ البتہ گزشتہ ایک سال سے جب سے آبنائے باب المندب کی ناکہ بندی شروع ہوئی ہے، نہ صرف یمن میں بڑے پیمانے کی ہلاکتوں کی کوئی خبر نہیں آئی ہے بلکہ امریکہ اس خوف میں مبتلا ہوگیا ہے کہ کہیں یمن تل ابیب کے حامیوں پر اپنا دباؤ مزید نہ بڑھا دے۔
خبر کا کوڈ : 1171960
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش