تحریر: علی ناصر الحسینی
کے پی کے، قبائلی ضلع کرم ایجنسی کا صدر مقام پاراچنار مسلسل ظلم و زیادتیوں کا شکار ہے، اس خطے کو اگر سزا دی جا رہی ہے تو اس کے باسیوں کا فقط ایک جرم ہے کہ وہ پیروان مکتب جعفری ہیں، ان کا جرم اہل تشیع ہونا ہے۔ تین اطراف سے گھرے ہوئے لاکھوں کی آبادی کا واحد راستہ کو حکمرانوں، فورسز اور تکفیری گٹھ جوڑ نے بلاک کر دیا ہے۔ اہل پاراچنار کا چاروں اطراف سے محاصرہ جاری ہے، جس کی وجہ سے بنیادی انسانی ضروریات کا قحط پڑ چکا ہے، کھانا پینا، ادویات، صحت و سلامتی کے مسائل، شدید مریضوں کو پشاور کی طرف لے جانا، ادویات کا پشاور سے پاراچنار تک پہنچنا، الغرض بنیادی ترین معمولی چیز سے لے کر بڑے سے بڑی اشیاء ناپید ہوچکی ہیں۔ اس لیے کہ چہار اطراف سے محاصرہ ہے۔
یہ محاصرہ پہلی بار نہیں ہوا، اس سے قبل بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ 2007ء میں چھڑی جنگ کے بعد بھی ایسا ہی تھا، یہ جنگ 2011ء تک رہی تھی۔ اس جنگ کے دوران تکفیری عناصر نے ٹل پاراچنار روڈ اپل تشیع کیلئے مقتل گاہ بنا دی تھی، جس کے باعث اس وقت ایئر سروس شروع کی گئی تھی اور افغانستان کی حکومت سے مذاکرات کے ذریعے قبائلیوں نے بارڈر انٹری کھولی تھی، جس کے راستے میں بھی کچھ واقعات ہوئے تھے اور ایمرجنسی میں براستہ افغانستان جانے والوں کو افغانستان کے اندر بھی شہید کیا گیا تھا، اب ویسے بھی وہاں طالبان برسر اقتدار ہیں، جو پاکستان میں تکفیری عناصر کے مکمل مدد گار و سرپرست ہیں۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو عجیب بات یہ ہے کہ یہ وہی پاراچناری مومنین ہیں، جو ہمیشہ دشمن ملک افغانستان سے ہونے والی دراندازی اور شدید گولہ و باری میں افواج و فورسز کے ساتھ فرنٹ لائن محاذ پر ہوتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی افغانستان کی طرف سے ہونے والی شدید گولہ باری اور تجاوز نیز دراندازی کے مدمقابل اپنی ملکی افواج کا ساتھ دینے کیلئے لائنوں میں لگے نام لکھوا رہے تھے، مگر آج اور اس وقت یہی ملک دشمن تکفیری عناصر جو اب انہی فورسز کی زیر سرپرستی اور افغانستانی، حکومتی طالبانوں، کیساتھ مل کے ضلع کرم کے اہل تشیع طوری و بنگش قبائل کے خلاف ایک ہی فریم میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ وطن کے فرزندان کو وطن سے محبت کا سبق دیا جا رہا ہے، کیا پاراچنار جیسے حساس سرحدی ایریا کے غیور اور وطن سے محبت کرنے والے قبائل کو ملک کے خلاف کرنے میں کچھ کسر باقی رہ گئی ہے۔؟
یا رہے کہ عمران خان کے دور میں قبائلی ایجنسیز کو اضلاع میں تبدیل کیا گیا تھا، مگر عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اب بھی سارا انتظام و انصرام افواج و فورسز کے پاس ہے، جو جیسے چاہتے ہیں، نظام چلاتے ہیں جبکہ صوبائی گورنمنٹ کی عمل داری زیر سوال رہتی ہے، جہاں صوبائی حکومت نے سٹینڈ لینا ہو، لے سکتی ہے۔ بنوں وغیرہ کی مثال سامنے ہے، عوام نے شدید احتجاج کیا، جبکہ حکومت مقامی پولیس کو افواج کے سامنے لے آئی، پاراچنار باقی قبائلی اضلاع کی بہ نسبت ہمیشہ پرامن خطہ رہا ہے، جہاں کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب ہوتے ہیں، جو افواج پاکستان پر ایک گولی بھی نہیں چلاتے۔ یہی ان کا ریکارڈ ہے جبکہ دیگر ایجنسی اضلاع میں افواج پاکستان اور فورسز پر نجانے کتنے خودکش حملے ہوچکے ہیں۔
فورسز کی ایجنسی اضلاع مین شہادتوں کا ریکارڈ دیکھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کرم ایجنسی بالخصوص پاراچنار کا ریکارڈ اس عنوان سے بہت مختلف ہے۔ اس سب کے باوجود پاراچنار کے محب وطن لوگوں پر ایسے مصائب اور مصیبتیں لائی جاتی ہیں، جن کا تعلق صاحبان اقتدار و مقتدر طاقتوں سے ہوتا ہے۔ ان میں ہر دور کی حکومت اور پس پردہ مقتدر طاقتوں سے ہوتا ہے، ان کا قصور اور کچھ نہیں، بس یہ ہے کہ یہاں اہل تشیع کی اکثریت ہے، جن کو طاقتور دیکھنا، ترقی یافتہ دیکھنا، پرسکون دیکھنا کسی کو بھی گوارا نہیں۔ یہاں کی خوشحالی دیگر ایجنسیز کے لوگوں کو حسد میں مبتلا کرتی ہے اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انتظامی افسران چاہے ان کا تعلق ڈپٹی کمشنر سے ہو یا اس سے نیچے، سب کے سب دیگر علاقوں سے آتے ہیں۔ جن کے ذہنوں میں تعصب اور شدت پسندی حتی نفرت بھری ہوتی ہے۔
ایسے ہی فورسز میں تعینات افسران بھی ملک کے دیگر حصوں سے جاتے ہیں اور انہیں اس قدر پرامن، تعلیم و تہذیب یافتہ قبائلی دیکھ کر جہاں خوشی ہوتی ہے، وہیں ان مین حسد بھی جنم لیتا ہے کہ یہ ان کے فرقہ کے نہیں بلکہ ایسے فرقہ کی اکثریت ہے، جنہیں ان کے مولوی کافر گردانتے ہیں تو یہ سب مقامی تکفیریوں کی سرپرستی کرنا، انہیں ہر حال میں مقتدر بنانا، اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ اب جب ہر طرف سے محاصرہ ہے، پشاور ٹل روڈ بند کیا گیا ہے، ایسے میں ایک متبادل روڈ سے آٹے کا ایک ٹرک لوٹ لیا جاتا ہے، ایک مرغیوں کا ٹرک لوٹ لیا جاتا ہے، اس پر حکومت کسی بھی قسم کا ایکشن نہیں لیتی، جبکہ تری مینگل میں اسکولز اساتذہ کے بہیمانہ قتل سے لیکر اب تک اہل تشیع کے خلاف بیسیوں واقعات حکومتی و فورسز کی سرپرستی میں ہوچکے ہیں، ایسے میں مقامی متاثرہ خاندانوں اور قبائل کا فورسز پر اعتماد ممکن ہی نہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ کے پی کے میں ایک ایسی حکومت ہے، جسے ہماری قوم کے بہت بڑے نمائندہ سیاسی پلیٹ فارم کی مکمل حمایت بلکہ غیر مشروط حمایت حاصل ہے اور وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز شخصیت کو تو ہر موقع پر قومی سیاسی جماعت نے بھرپور حمایت و مدد سے نوازا ہے۔ لہذا حکومت کی جانب سے کیے جانے والے ناکافی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرنا فطری عمل ہے، صوبائی حکومت کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ جو بھی احتجاج ہوگا، اسے حکومت کو ہی بھگتا ہوگا، مقتدر قوتیں تو بند کمروں میں اپنے مزے کر رہی ہوتی ہیں، عوام کا سامنا تو بہرحال سیاسی نمائندوں کو ہی کرنا ہوتا ہے۔ حساس سرحدی ایریا ہونے کے ناطے، مقتدر قوتوں اور ذمہ داروں کو چاہیئے کہ اس شر اور فساد کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکیں، ورنہ اس ملک کا نقصان ہوگا، ایسا نقصان جس کے ہم قطعی متحمل نہیں ہیں، ہزار بار آزمائے ہووں کو آزمانا سراسر زیادتی و ظلم ہے۔