1
0
Sunday 18 Aug 2024 18:56

محترم رائے یوسف دھنیالہ صاحب سے ایک گزارش 

محترم رائے یوسف دھنیالہ صاحب سے ایک گزارش 
تحریر: محمد حسن جمالی

رائے یوسف دھنیالہ صاحب سوشل میڈیا پر متحرک بہترین قلم کار ہیں۔ آپ وقتاً فوقتاً حالات حاضرہ پر لکھتے رہتے ہیں۔ آپ مذہبی اور دینی اختلافی مسائل کو تحقیقی زاویہ نظر سے سمجھنے پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ موصوف کی اس مثبت سوچ کو دانشمند احباب پسند کرتے ہیں، کیونکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہيں کرسکتا کہ پڑھا لکھا انسان جب تک وسعت فکری و ذہنی سے مطالعہ نہیں کرتا، تب تک اس کے سامنے حقائق کا دروازہ کھلنا ممکن نہیں۔ رائے یوسف دھنیالہ کے حالات حاضرہ پر مبنی تجزیات وزنی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے تجزیات کی اپنی خاص چاشنی و مٹھاس ہوتی ہے۔ اب تک ہماری نظروں سے گزری ہوئی ان کی تحریروں کے بل بوتے پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی مسائل پر موصوف کا مطالعہ کافی حد تک دقیق ہے۔حالات حاضرہ پر ان کی نظر گہری ہے اور سیاسی مسائل پر تجزیہ کرنے میں تقریباً وہ انصاف پسند ہیں، لیکن انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ جب دھنیالہ صاحب کا قلم مذہبی اختلافی مسائل پر چلنے لگتا ہے تو انصاف کی چاردیواری پھلانگ کر باہر نکلتا ہے۔

ویسے مذہب سے مربوط مسائل اپنی جگہ انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ ان پر ہر کس و ناکس نہ لکھ سکتا ہے اور نہ ہی بول سکتا ہے۔ اگر کسی کو مذہبی مسائل پر بولنے اور لکھنے کا شوق ہے تو وہ ضرور اپنا شوق پورا کرے، مگر ضروری ہے کہ وہ پہلے مذہبی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرے۔ یہ بات بھی ذھن نشین رہے کہ فہم دین کی صلاحیت خودکار طریقے سے کسی میں پیدا نہیں ہوا کرتی، بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی عمر کا کم از کم ایک حصہ اسلام فہمی کے اصولوں کو سمجھنے میں گزر جائے اور وہ اسلام کے اصول و فروع سے کماحقہ آشنا ہو جائے، مگر پاکستانی کچھ دانشوروں کے لئے یہ بات بے معنی ہے۔ ان کے ہاں مذہبی مسائل پر اظہار رائے کرنے کا معیار تھوڑا لکھ سکنا اور پڑھ سکنا ہے۔ ان کی نظر میں جن کو الفاظ سے کھیلنا آتا ہو یا الفاظ کے جوڑ توڑ سے جملے بنانا آتا ہو، وہ مذہبی مسائل پر کھل کر اظہار کرسکتے ہیں۔

محترم رائے یوسف دھنیالہ کا تعلق اگرچہ مذہبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد گرامی اہلسنت والجماعت کے بااثر مولوی تھے۔ ان کے مولوی ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے گھر میں مذہبی کتابیں فراوان ہوں۔ چنانچہ میرا گمان یہ ہے کہ ان کے فرزند ارجمند جناب یوسف رائے کو اپنے گھر میں موجود والد محترم کی کتابوں کو کھنگالنے کا موقع ملا ہے، جس کے نتیجے میں مذہب اور مکاتب سے متعلق ان کے ذھن میں کچھ معلومات ذخیرہ ہوچکی ہیں۔ مذہبی مسائل سے متعلق لکھی جانے والی ان کی تحریریں ببانگ دھل یہ اعلان کر رہی ہیں کہ موصوف نے کسی دینی مرکز سے باقاعدگی سے دینی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ اس کے باوجود عرصے وہ سوشل میڈیا پر بڑے دھڑلے سے نہ فقط اپنے مکتب سے متعلق لکھ رہے ہیں، بلکہ دوسرے مکاتب فکر کے متعلق بھی اس انداز میں قلم فرسائی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ گویا وہ برسوں سے صرف مختلف مکاتب فکر کے موضوع پر تحقیقی کام میں مصروف ہوں۔

انہوں نے ایک دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ایسی تحریر لکھ کر پھیلائی ہے، جو نہ صرف منطق و دلیل سے عاری ہے، بلکہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ آپ بھی ایک مرتبہ سوشل میڈیا پر سرچ کرکے اس تحریر کو پڑھ سکتے ہیں۔ تحریر کا عنوان یہ ہے (سوشل میڈیا پہ متحرک برصغیر کے شیعہ ذاکروں اور سنی مولویوں کی بیان کردہ لغویات اور خرافات!)۔ رائے یوسف دھنیالہ صاحب اگر اپنی اس تحریر میں عنوان سے متعلق مصدقہ معلومات لکھ چکے ہوتے تو یقیناً ہر پڑھا لکھا شخص ان کو داد دیتا، ان کی تعریف کرتا، اس لئے کہ ہر کوئی کچھ شیعہ ذاکریں اور اکثر سنی مولویوں کے خرافات و بدعات اور لغویات سے بیزار ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ ان کی بیہودہ حرکتوں کا راستہ روکے اور لوگوں کو ان کے شر سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے، مگر المیہ یہ ہے کہ اس تحریر میں دھنیالہ صاحب نے نہ صرف اپنے عنوان سے متعلق درست معلومات کی جمع آوری نہیں کی ہے، بلکہ عنوان کے ذیل میں کچھ ایسی باتیں لکھ ڈالی ہیں، جو خود اپنی جگہ لغویات شمار ہوتی ہیں۔

بطور مثال انہوں نے لکھا ہے کہ 99 فیصد شیعوں کے ایمان کے بارے میں سوال پیدا ہونے لگتا ہے کہ ان کے عقائد میں پیغمبر اکرم کے دین کا دو چار فیصد بھی تناسب ہے یا یہ بھی نہیں۔ جناب رائے یوسف دھنیالہ صاحب آپ نے اسی تحریر کے چند سطر پہلے لاجک اور منطق کی بات کی ہے تو کچھ ذاکرین کی حرکتوں کو دیکھ کر 99 فیصد شیعوں کے ایمان کو آپ نے کس لاجک و منطق کے مطابق نشانہ بنایا ہے؟ کیا آپ کی نظر میں یہ قرین انصاف بات ہے؟ ہماری نظر میں آپ نے یہ انتہائی نامناسب بات لکھی ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ جتنا شیعوں کے عقائد و ایمان عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں پیغمبر اکرم کے دین کے عین مطابق ہیں، کسی اور مکتب کے پیروکاروں کے نہیں۔ آپ صرف توحید کے حوالے سے تحقیق کیجئے۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ شیعہ عقائد لاجک اور منطق پر مبنی ہیں یا اہلسنت کے عقائد۔ آپ  آیت (الرحمن علی العرش استوی) کی تفسیر پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ کن کے عقائد لاجک و منطق سے تہی ہیں۔ آپ کے مکتب میں تو متشابہ آیات میں غور کرنے سے ہی منع کیا گیا ہے، تاکہ کچھ عقائد زیر پا نہ ہوں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو جو مدینہ میں آکر متشابہات میں گفتگو کرتا تھا، اس کو سخت سزا دی تھی اور جب وہ واپس اپنے وطن گیا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری کو حکم بھیجا کہ کوئی مسلمان اس کے پاس بیٹھنے نہ پائے(سنن دارمی: ۱/۲۵۲، دارالمغنی، مکة المکرمہ۔ روح المعانی: ۳/۸۸، ملتان) اس کے علاوہ خلافت کے علاوہ مسئلے پر بھی ذرا غور کیجئے کہ خلیفہ اول کو اجماع امت نے خلیفہ بنایا، مگر خلیفہ دوم کو خلیفہ اول نے مسلمانوں کا خلیفہ بنایا تو ذرا بتائیے کہ بالآخر انتخاب خلیفہ رسول آپ کے مکتب میں انتخابی ہے یا انتصابی؟ آپ کے مکتب میں انتخاب خلیفہ کی منطق و لاجک کیا ہوئی؟ شیعہ سنی دونوں کے ہاں قطعی و متواتر حدیث ثقلین میں کس لاجک و منطق کے تحت تاویل کی گئی؟ اس حوالے سے اہلسنت مفتی ہمدرد کے کلپس سماعت فرمانا کافی ہے۔

پھر ذرا آگے موصوف نے بڑے غیر ذمہ دارانہ انداز میں لکھا ہے کہ 99 فیصد شیعوں کا دین ہندو طرز کا ہے اور اس ہندوانہ طرز کے دین کو وہ پسند کرتے ہیں۔ جناب تجاہل عارفانہ کے لئے بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ آپ کی اس منطق و لاجک کو کیا نام دیا جائے؟ چلیں اسے ہم آپ پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ کس قدر ناانصافی کی بات ہے کہ جناب نے شیعوں کے مقدس دین کو ہندو رسم سے جوڑا ہے۔ اگرچہ بہت عرصہ پہلے سے آپ ایسی لغویات کو لکھ کر اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔ اس سے اور تو کچھ نہیں ہو رہا، مگر اہل مطالعہ حلقوں میں آپ کی شخصیت پر کاری ضربیں ضرور لگ رہی ہیں۔ آپ سے ہماری گزارش یہ ہے کہ شیعہ مکتب کو پڑھیں، سمجھیں۔ جس طرح مفتی ہمدرد تحقیق کر رہے ہیں، ویسی ہی تعصبات سے بالاتر خالی الذھن ہوکر آپ بھی ریسرچ کرنا شروع کریں، ان شاء اللہ حقائق کا دروازہ ضرور آپ کے سامنے کھل جائے گا۔ بغیر تحقیق کے اپنے محلے اور گلی کے کچھ جاہلوں کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر مکتب تشیع سے متعلق بے بنیاد باتیں لکھنا نہ صرف درست نہیں بلکہ یہ کام حماقت کی انتہاء ہے۔
خبر کا کوڈ : 1157087
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
خلیفہ اول کے انتخاب کے وقت کوئی اجماع نہیں ہوا۔ نہ ہی کسی کو اجماع کیلئے بلایا گیا۔ صرف تیرہ آدمی وہاں آئے اور ان میں سے چھ بندے تو ایک بیمار کی تیمار داری کیلئے آئے تھے۔ تین حضرات پہلے چھ کے وہاں آنے کی خبر سن کر دوڑتے آئے تو اس طرح کل نو آئے، باقی جب ان نو میں لڑائی شروع ہوئی تو وہ لڑائی کا شور سن کر چار پانچ آدمی چھڑوانے آئے۔ ایک دوسرے کی داڑھی کھینچی گئی اور خوب زدوکوب کیا گیا۔ اگر اسی کا نام اجماع ہے تو پھر خوب اجماع ہوا۔
ہماری پیشکش