1
Thursday 8 Aug 2024 17:13

جدہ اجلاس اور اسلامی ممالک کی ذمہ داریاں

جدہ اجلاس اور اسلامی ممالک کی ذمہ داریاں
تحریر: احمد کاظم زادہ
 
گذشتہ ہفتے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تہران میں نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں مہمان کے طور پر آئے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر انہیں شہید کر دیا۔ اس افسوسناک واقعے کے فوراً بعد ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے اپنے پیغام میں اسرائیل کو سخت سزا دیے جانے کا عندیہ دیا۔ ایک دن پہلے ہی اسرائیل نے بیروت میں میزائل حملہ کر حزب اللہ لبنان کے اعلی سطحی کمانڈر فواد شکر کو بھی شہید کر دیا تھا۔ حزب اللہ لبنان نے بھی اسرائیل سے سخت بدلہ لینے کی دھمکی دی تھی۔ اس سے چند دن پہلے غاصب صیہونی رژیم نے یمن کی الحدیدہ بندرگاہ پر فضائی حملہ کیا جس میں متعدد یمنی شہری شہید اور زخمی ہو گئے تھے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ نے بھی اسرائیل کو جوابی حملے کی دھمکی دی تھی۔
 
ایسے وقت جب پوری دنیا کی توجہ مشرق وسطی پر مرکوز ہے اور سب ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے اسرائیل کے خلاف انتقامی کاروائی کا انتظار کر رہے تھے جدہ میں او آئی سی یا اسلامک تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس ایران کی درخواست پر منعقد ہوا۔ اس ہنگامی اجلاس کا مقصد فلسطینی عوام کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات نیز تہران میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ شہید اسماعیل ہنیہ کی اسرائیل کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کے مختلف پہلووں کا جائزہ لینا تھا۔ یہ ٹارگٹ کلنگ اسلامی جمہوریہ ایران کی خودمختاری اور ملکی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی تھی جس کے بعد ایران نے سفارتی شعبے میں بھی فعالیت تیز کر دی تھی۔ ایران کے مشیر خارجہ نے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اور اس کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کیا اور جدہ میں ہنگامی اجلاس کے انعقاد کا زمینہ فراہم کیا۔
 
ایسے وقت جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی بین الاقوامی امن اور سلامتی برقرار کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، او آئی سی کے اس ہنگامی اجلاس کی اہمیت دوچنداں ہو گئی ہے۔ ایک طرف خطے کے ممالک، خاص طور پر ایران اور سعودی عرب نے وسیع تر مفادات کی خاطر باہمی تعاون اور دوستانہ تعلقات کو پہلی ترجیح بنا رکھا ہے جبکہ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم اور بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں دائیں بازو کی انتہاپسند حکومت خطے میں بدامنی اور عدم استحکام پھیلانے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے کیونکہ وہ ایسی صورتحال کو ہی اپنے مفادات کے حق میں بہتر سمجھتی ہے۔ او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کا انعقاد اور اس میں منظور شدہ قراردادیں غاصب صیہونی رژیم کی حالیہ ریاستی دہشت گردی کے مقابلے میں ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے اپنے دفاع میں جوابی کاروائی کے جائز اور قانونی حق پر زور دیتی ہیں۔
 
کچھ ماہرین اور تجزیہ کار یہ امکان بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی جوابی کاروائی ایک علاقائی جنگ شروع ہونے کا باعث بھی بن سکتی ہے اور یوں نیتن یاہو کا مطلوبہ مقصد یعنی اپنی متزلزل حکومت کی بقا کیلئے علاقائی جنگ کا آغاز، پورا ہو سکتا ہے۔ لیکن غاصب صیہونی رژیم کے ماضی کے اقدامات کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اسے ضروری اور دندان شکن جواب نہ دیا گیا تو وہ اپنی ریاستی دہشت گردی جاری رکھے گی اور ایک بار پھر خطے کے ممالک کی ریڈ لائنز سے عبور کر جائے گی۔ اسلامک تعاون تنظیم مسئلہ فلسطین سے متعلق بھی واضح ذمہ داری رکھتی ہے اور بنیادی طور پر او آئی سی کا فلسفہ وجودی فلسطین اور مسجد اقصی کے دفاع پر مبنی ہے جبکہ تاریخ میں فلسطین اور مسجد اقصی کو اتنا بڑا اور شدید خطرہ کبھی بھی پیش نہیں آیا جتنا اس وقت درپیش ہے۔
 
 اگر اس سے پہلے یہ امکان پایا جاتا تھا کہ ایک دن فلسطینی عوام غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں ایک محدود فلسطینی ریاست کے مالک بن جائیں گے تو گذشتہ دس ماہ کی غزہ جنگ کے دوران یہ امکان بھی مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے اور روز روشن کی مانند عیاں ہو چکا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ میں خون کی ہولی کھیلنے کا واحد مقصد وہاں سے فلسطینی عوام کو زبردستی جلاوطن کر کے مصر یا دیگر ملک بھیجنا ہے۔ اگر وہ غزہ میں یہ کام کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مناسب موقع ملنے پر مغربی کنارے میں بھی یہی سازش انجام دے گی اور وہاں سے بھی فلسطینیوں کو ہمیشہ کیلئے نکال باہر کر کے اردن بھیج دے گی۔ اسی طرح ایسے ٹھوس ثبوت پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی رژیم 1948ء کی مقبوضہ سرزمین میں مقیم عرب مسلمانوں کیلئے بھی خطرناک منصوبے رکھتی ہے۔
 
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پورے مقبوضہ علاقوں میں خالص صیہونی ریاست کے قیام کیلئے کوشاں ہے اور اس مقصد کیلئے وہ تمام عرب مسلمانوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا چاہتی ہے۔ لہذا غاصب صیہونی رژیم سے کسی بھی قسم کے تعلقات استوار کرنے سے پہلے تمام فلسطینی گروہوں کی خواہشات اور آراء کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ غاصب صیہونی رژیم سے سیاسی اور اقتصادی تعلقات منقطع کر لینا، جنگی مجرم کے طور پر نیتن یاہو کی گرفتاری کی حمایت کرنا، عالمی اداروں سے صیہونی رژیم کی رکنیت ختم کروانے کی کوشش کرنا نیز حالیہ صیہونی ریاستی دہشت گردی کے خلاف اسلامی مزاحمتی بلاک کے جوابی اقدام کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنا چند ایسے اقدامات ہیں جن کے ذریعے اسلامک تعاون تنظیم مسئلہ فلسطین سے متعلق اپنی اہم ذمہ داریوں اور فرائض کا ایک حصہ ادا کر سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1152748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش