0
Tuesday 6 Aug 2024 20:52

غداروں کو پہچانیں

غداروں کو پہچانیں
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

بعض عرب ممالک نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کیوں نہیں کی، اس آرٹیکل میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے خلاف بعض عرب ممالک کی خاموشی طوفان الاقصیٰ آپریشن سے نفرت کی وجہ سے ہے، جس نے ان کے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو سبوتاژ کر دیا ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی بین الاقوامی مذمت کے باوجود، جنہیں گذشتہ بدھ کو تہران میں قتل کر دیا گیا تھا، بعض عرب ممالک جنہیں فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیئے، اس جرم کے مقابلے میں مکمل خاموش کھڑے ہیں۔ ایک عجیب اور معنی خیز خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ ان حکمرانوں کے لیے مسئلہ فلسطین سے زیادہ اہم ان کے اپنے مفادات ہیں۔ ایک فلسطینی ویب سائٹ نے اعلان کیا کہ چار عرب ممالک "یو اے ای، بحرین، مراکش نے اس واقعے کی مذمت نہیں کی۔"

حالیہ برسوں میں ان ممالک نے اپنی رائے عامہ کی خواہشات کے خلاف صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی راہ اختیار کی ہے اور قابضین کے ساتھ دوستی کے ذریعے خطے میں اپنے لیے اہم پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ خلیج فارس میں مفاہمت کے علمبردار متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمرانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ تعلقات کو معمول پر لانا فلسطینی عوام کی حمایت کے لئے ہے اور انہوں نے ان دعووں کے ساتھ گویا عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ صیہونی حکومت کے سفارتخانے کو دوبارہ کھولنے کے علاوہ، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اس حکومت کے ساتھ سکیورٹی کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے، جس سے تعاون کو مضبوط کرنے کی راہ ہموار ہوئی تھی، جب 7 اکتوبر کو حماس نے طوفان الاقصیٰ آپریشن انجام دیا تو بحرین اور متحدہ عرب امارات کی  سمجھوتے اور نارمالائزیشن پر مبنی علاقائی حکمت عملی بری طرح فلاپ ہوگئی۔

عرب دنیا میں صیہونی مخالف نقطہ نظر شدت اختیار کرگیا اور عملی طور پر وہ کامیابیاں حاصل نہیں ہوئیں، جو ان ممالک نے نارملائزیشن سے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ طوفان الاقصیٰ سے پہلے سعودی عرب بھی تعلقات معمول پر لانے کی طرف قدم بڑھا رہا تھا اور امریکہ کی ثالثی سے دونوں فریقین کے درمیان معاہدے پر دستخط ہونے کا امکان تھا اور خطے کے دیگر عرب ممالک بھی اس کی تکمیل کے لیے کوشاں تھے، لیکن غزہ کی جنگ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ متحدہ عرب امارات نے اپنی جغرافیائی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کی امداد پر اعتماد کیا تھا، لیکن اب جب کہ عالمی برادری غزہ میں صہیونی جرائم کی وجہ سے فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑی ہے، وہ نارملائزیشن کی راہ کو جاری نہیں رکھ سکتے۔

اس لیے حماس کے آپریشن کے بعد نارملائزیشن کے منصوبے کے کمزور پڑنے سے عرب حکمران اس تحریک کے رہنماؤں سے ناراض ہوگئے، کیونکہ وہ اپنے مقرر کردہ اہداف حاصل نہیں کرسکے اور وہ اس ناکامی کا ذمہ دار حماس کے رہنماؤں کو ٹھہراتے ہیں۔ اب غزہ کی تباہ کن صورتحال کے باعث خطے کے حالات ایسے ہیں کہ کوئی بھی عرب ملک تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی بات کرنے کی بھی جرأت نہیں کرسکتا اور یوں متحدہ عرب امارات کے حکمران اپنے خواب چکنا چور ہوتے دیکھ رہے ہیں اور وہ حماس کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

اسرائیل کی جیت کی امید
متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمران جنہوں نے حماس کی کارروائی کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور وہ کچھ نہیں کرسکے۔ تاہم نارملائزیش کے حامیوں کے منصوبے سیاسی طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔، اس لیے وہ اس وقت غزہ کی جنگ کے تحفظ کے پہلو کی امید رکھتے تھے۔ ان ممالک کو توقع تھی کہ صہیونی فوج غزہ پر قبضہ کرکے حماس کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ کو دور کردیا جائے گا، لیکن انہیں یہ منصوبہ بھی کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ لاکھوں افراد کے متحرک ہونے نیز جدید مغربی ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود اسرائیلی فوج مزاحمتی گروہوں کے خلاف بے بس نظر آتی ہے، وہ بلاشبہ اس خود ساختہ بحران سے نکلنے میں ناکام ہے۔

خطے میں صیہونی حکومت کی شکست مزاحمتی گروہوں کے حق میں تمام مساوات کو بدل دے گی اور مصالحتی عرب حکمرانوں نے جن منصوبوں پر سرمایہ کاری کی تھی، وہ خاکستر ہو جائیں گے۔ بعض عربوں کی جانب سے ہنیہ کے قتل کی عدم مذمت میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ حماس میں اخوان المسلمون کے رجحانات تھے اور یہ نظریہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ دسمبر 2019ء میں، متحدہ عرب امارات نے اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور اس گروپ کے خلاف جنگ تیز کردی۔ اس لیے متحدہ عرب امارات کی جانب سے حماس کو بالواسطہ طور پر دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا اور اس لیے ابوظہبی کے حکمرانوں کے نقطہ نظر سے، تل ابیب کے ہاتھوں حماس کے رہنماؤں کے قتل کی مذمت کی ضرورت نہیں ہے۔

عربوں کے اخراجات میں اضافہ
ابراہم معاہدے کے نشے میں دھت متحدہ عرب امارات اور بحرین خطے میں نئے سکیورٹی آرڈر میں سب سے آگے رہنا چاہتے تھے اور اس طرح خصوصی سیاسی اور اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے درپے تھے، لیکن غزہ جنگ نے ان ممالک کے کندھوں پر اضافی اخراجات ڈال دیئے ہیں۔ سمجھوتہ کرنے والے شیوخ نے خطے میں اس ملک کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے اسرائیل کی مدد سے ایران کے خلاف اتحاد بنانے کی کوشش کی، لیکن اب ایران کی طرف سے غزہ کے عوام کی وسیع حمایت اور مقبوضہ علاقوں کے خلاف "سچا وعدہ" آپریشن کے نفاذ کی وجہ سے، ایران نے مسلم ممالک میں زیادہ مقبولیت حاصل کرلی ہے۔ ایران اور مزاحمت کے بلاک نے صیہونیوں کے لیے یہ مصیبت کھڑی کر دی ہے کہ عرب اب خطے کے سیاسی اور سکیورٹی منظرنامے سے باہر ہوگئے ہیں۔

یہ حقیقت  ہے کہ مغرب والے ہر روز ایران کو پیغامات بھیجتے ہیں کہ وہ مزاحمتی گروہوں کو تناؤ کم کرنے اور مقبوضہ علاقوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر آمادہ کریں، یہ سب کچھ مغربی ایشیا میں ایران کی اعلیٰ پوزیشن کی علامت ہے، جس نے عبرانی و عرب حکومتوں کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ مغربی اور عرب محاذ جو غزہ جنگ کے بعد خطے میں ایران کے ہاتھ اور اس کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا چاہتا تھا، اسے ایک مقبول ایران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے، جس نے حریف کو کمزور کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی اختیار کی ہے۔ متحدہ عرب امارات جو کہ حالیہ برسوں میں عرب دنیا کی قیادت کے زعم میں مبتلا تھا، یہ سمجھتا تھا کہ صیہونی حکومت کی مدد سے وہ فلسطینی تنازع پر اثر انداز ہو کر خطے کا مضبوط کھلاڑی بن سکتا ہے، لیکن اب اس ملک کو القدس کا غدار سمجھا جاتا ہے۔

یو اے ای نے طوفان الاقصی کو ایک جرم قرار دیا اور بعض ذرائع نے تو یہاں تک کہا کہ یہ ملک غزہ میں فلسطینیوں کو قتل کرنے میں اسرائیل کو جنگجو بھیج کر اس حکومت کی مدد کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب اور اردن کی مدد سے خلیج فارس سے صیہونی سامان کو مقبوضہ علاقوں میں بھیجنے کے لیے ایک پل بنایا، تاکہ قابضین کو بحیرہ احمر میں کشیدگی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نارملائزیشن کے حامی عرب حکمرانوں کا خیال ہے کہ وہ غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کی حمایت کرکے نیز مزاحمتی گروہوں کے خلاف فتح حاصل کرکے خطہ میں طاقت کا توازن  اپنے حق میں کرلیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام منصوبے خاک میں ملتے نظر آرہے ہیں، کیونکہ وہ رائے عامہ کے سامنے اپنی قانونی حیثیت کھو چکے ہیں۔ انہیں اب بحران کے بڑھنے اور جنگ کے پھیلاؤ کیوجہ سے اضافی سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جو عرب ممالک نارملائزیشن کی طرف بڑھے تھے، اب انہیں جہاں اپنی رائے عامہ کے شدید ردعمل کا سامنا ہے، وہاں خطے میں ان کی سیاسی و فوجی حیثیت اور ساکھ کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1152463
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش