تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
مقبوضہ فلسطین پر قابض غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے جنگی مجرم اور قاتل وزیر اعظم نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ امریکی کانگریس سے خطاب کیا۔ امریکی کانگریس میں ایک گھنٹہ تک جاری رہنے والا یہ خطاب در اصل جھوٹ کا ایک پلندا تھا جس کا مقصد امریکہ کو باور کروانا تھا کہ امریکہ اسرائیل کے لئے مزید مدد کرے اور مزید اسلحہ کی سپلائی یقینی بنائے۔ اس خطاب کو جھوٹ کا پلندا اس لئے قرار دیا گیا ہے کیونکہ نیتن یاہو نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل ازلی دوست ہیں۔ نہیں دوست نہیں بلکہ اسرائیل امریکہ کی ایک پراکسی ہے جس کا مقصد مغربی ایشیائی ممالک میں امن و امان کو خراب رکھنا اور سیاسی و فوجی انتشار پھیلانا ہے۔جو کہ گذشتہ 76 برسوں سے جاری ہے۔ نیتن یاہو نے اگلے چند ہی لمحوں میں اپنی پہلی بات کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک بڑی جنگ لڑ رہا ہے اور اسرائیل اپنے لئے نہیں بلکہ امریکہ کے لئے لڑ رہا ہے۔ یعنی راقم نے جو بات اوپر بیان کی کہ اسرائیل امریکہ کی پراکسی ہے وہ درست ثابت ہوتی ہے۔
نیتن یاہو نے حماس کی سات اکتوبر کی کاروائی یعنی طوفان اقصیٰ آپریشن کو دہشت گردی قرار دیا جبکہ جو کچھ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل گزشتہ 76 سالوں سے فلسطینیوں کے ساتھ کر رہی ہے اس کا ذکر نہیں کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ امریکی حکومت کے عہدیداران کس طرح اس جھوٹ کے پلندا پر خاموش رہے بلکہ ساتھ ساتھ تالیاں بجا کر اس جھوٹ کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے۔ نیتن یاہو نے کوشش کی کہ امریکہ کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ سات اکتوبر کی فلسطینی عوام کی دفاعی کاروائی نائن الیون سے بڑا حملہ تھی لیکن پوری دنیا یہ بات اچھی طرح جانتی ہے فلسطینی عوام غاصب صیہونیوں کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے حماس کو ختم کرنے کا اعلان بھی کیا حالانکہ وہ یہ بات کہنا بھول گئے کہ اب تک دس ماہ میں وہ حماس کے ایک سرکردہ رہنما یحیٰ سنوار کو بھی گرفتار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کے قاتل اور جنگی مجرم وزیر اعظم نیتن یاہو نے ہمیشہ کی طرح امریکہ کو یاد دلونے کی کوشش کی کہ ایران امریکہ کا دشمن ہے۔ اپنی تقریر میں ہر بات کا ذمہ دار انہوںنے ایران کو قرار دیا۔
جب حماس کی بات کی تو کہا کہ حماس کا مطلب ایران ہے۔ اسی طرح جب حزب اللہ لبنان کی بات کی تو کہا کہ اس کا مطلب بھی ایران ہے۔ اسی طرح یمن کے انصار اللہ کی بات کی تو کہا کہ یہ بھی ایران ہے۔ جب عراق کی مزاحمتی فورسز یعنی حشد الشعبی اور کتائب حزب اللہ و دیگر کا ذکر کیا تو کہا یہ بھی ایران ہے۔ ایران نیتن یاہو کے دل اور دماغ پر اس قدر سوار تھا کہ جس وقت وہ تقریر کر رہے تھے عین اسی وقت عمارت کے باہر امریکی یہودی شہری نیتن یاہو کے امریکہ آنے پر احتجاج کر رہے تھے تاہم ان مظاہرین کے بارے میں بھی نیتن یاہو کہتا ہے کہ یہ جو باہر مظاہرہ کر رہے ہیں یہ بھی ایران کے بھیجے ہوئے ہیں۔ نیتن یاہو کا ایران ایران ایران کہنا در اصل اس بات کی دلیل ہے کہ نیتن یاہو شدید بوکھلاہٹ کا شکار تھے اور چاہتے تھے کہ جلد بازی میں امریکی کانگریس کی حمایت لے کر امریکی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ ایران کے خلاف کوئی بڑی جنگ کا آغازکر دے اور غزہ میں شکست سے نکلنے کا راستہ مہیا ہو جائے۔
نیتن یاہو کی حالت زارکا اندازہ اس جملہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی کانگریس کے اراکین سے کہا کہ ایران امریکہ کا نمبر ون دشمن ہے۔ نیتن یاہو نے غاصب اسرائیلی فوج کی دہشتگردانہ کاروائیوں کے بارے میں کہا کہ اسرائیلی فوج بہادری سے لڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فوج کس کے ساتھ لڑ رہی ہے؟ نہتے فلسطینی بچوں اور خواتین کے ساتھ؟ نہتے بزرگ فلسطینیوں کے ساتھ؟ یا یہ فوج گھروں اور اسکولوں اور اسپتالوں کی عمارتوں کو تباہ کر رہی ہے؟ یا پھر زخمی لوگوں کو قتل کر رہی ہے؟ آخر اس پورے ماجرے میں لڑائی اور بہادری کس جگہ پائی جا رہی ہے؟ ساتھ ساتھ نیتن یاہو کہتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں کسی عام آدمی کو قتل نہیں کیا۔ اس سے بڑا اور جھوٹ کیا ہو سکتا ہے؟
غزہ میں قتل ہونے والے چالیس ہزار سے زائد معصوم انسان جن میں بیس ہزار سے زائد معصوم بچے ہیں کیا یہ سب فوجی تھے؟ کیا یہ مسلح تھے؟ جی نہیں بالکل نہیں بلکہ یہ نہتے فلسطینی تھے جن کو غاصب صیہونی فوج نے قتل کیا۔ افسوس ہے کہ امریکی حکومت کے عہدیداروں نے کس طرح اس جھوٹ پر تحمل کیا ہے جبک حقائق پوری دنیا کے سامنے آشکار ہیں۔ یہاں پر بات نیتن یاہو کی نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ امریکہ جو جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار بننے کی کوشش کرتا ہے کس طرح ایک جنگی مجرم کی تقریر میں امریکی کانگریس ڈھیر ہوئی اور جھوٹ کا پلندا سن کر تالیاںبھی بجاتے رہے؟ یہ امریکہ کی تاریخ میں بدترین دن ہے۔ یہ امریکی سیاست کی تاریخ کے سیاسی ایام میں سے ایک ہے۔ یہ امریکہ کے شہریوں اور عوام کی توہین اور ذلت ہے۔
نیتن یاہو نے جھوٹ کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے اپنے خطاب میں امریکی کانگریس کے اراکین کو یہاں تک کہا کہ غزہ میں جانے والی امداد کو حماس کے مجاہدین لوٹ رہے ہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے امدادی کارکن بھی ان قافلوں پر اسرائیلی فوجیوں کے حملوں کو چشم دید گواہ ہیں اور کئی ایک امدادی کارکن تو اسرائیلی غاصب فوج کے ظلم کا نشانہ بن کر شہید بھی ہوئے ہیں۔ نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں اپنی بے بسی کا اظہار کچھ یوں کیا اور کہا کہ اگر حماس اسلحہ ترک کر دے اور خود کو ہمارے حوالے کر دے تو جنگ بند ہو سکتی ہے۔ حالانکہ گزشتہ دس ماہ میں حماس کو ختم کرنے کی تمام کوششیں بے سود اور ناکام ہو چکی ہیں اور حماس مزید طاقتور ہو چکی ہے جو کبھی غاصب صیہونی حکومت کے سامنے اسلحہ رکھ کر ذلت قبول نہیں کرے گی۔
نیتن یاہو نے امریکی کانگریس میں کھڑے ہو کر عالمی عدالت انصاف کی دھجیاں اڑا دیں اور امریکی کانگریس کے اراکین خاموشی سے سنتے رہے۔ عالمی عدالت انصاف نے نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا، اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا جو سچ بات ہے۔ اس بات پر سیخ پا ہوتے ہوئے نیتن یاہو نے کوشش کی کہ امریکی ہمدردیاں حاصل کی جائیں لیکن وہ ناکام ہوگئے، پوری دنیا میں عالمی عدالت انصاف کے ان فیصلوں کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ امریکی حکومت نیتن یاہو کے اس خطاب کے بعد پوری دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامنا کر رہی ہے کیونکہ اس خطاب کی بنیاد جھوٹ پر مبنی تھی اور عالمی عدالت نے جس ریاست کو ناجائز قرار دیا اس کے قاتل اور غاصب وزیر اعظم کو امریکی ایوان میں خطاب کروانا دراصل امریکی اقدار اور امریکی سیاسی اصولوں کی موت اور ذلت کا دن تھا۔ پوری دنیا میں نیتن یاہو کے امریکی کانگریس میں کئے گئے خطاب کو جھوٹ کا پلندا قرار دیا گیا ہے۔