1
Sunday 4 Aug 2024 10:56

اسرائیل كی وجودی مشكل اور ہماری ذمہ داری

اسرائیل كی وجودی مشكل اور ہماری ذمہ داری
تحریر: تابعدار حسین ہانی

2018ء میں میرا پہلی دفعہ تحصیل علم كے لیے ایران جانا ہوا، وہاں پر پہنچے ہوئے مجھے ایک سے دو مہینے گزرے تھے كہ ماه مبارک مضان كے آخری جمعہ كا دن آگیا، میں نے سنا ہوا تھا كہ ایران میں یوم القدس بہت اہتمام و بہترین طریقے سے منایا جاتا ہے اور یہ بھی معلوم تھا کہ اس دن كو عالمی دن كے طور پر منانے كا آغاز بھی ایران سے ہی ہوا تھا اور اس سنت حسنہ كا سہرا بھی ایران کے سر ہے۔ لہذا میں معینہ وقت سے پہلے، جہاں سے یوم القدس كی ریلی كا  آغاز ہونا تھا، وہاں پہنچ گیا۔ آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے، معینہ وقت پر ریلی كا آغاز ہوا اور یہ ریلی سمندر كا سماں اختیار كرگئی، ایسے لگتا تھا جیسے پورا ایران ہی گھروں سے باہر آگیا ہو۔

بہرحال ہم اس عظیم اجتماع میں شریک ہوئے اور جمعہ كی نماز كے بعد گھر كی طرف روانہ ہوئے، جس بَس پر میں سوار ہوا، میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک نوجوان بچہ بیٹھا ہوا تھا، جس كی عمر شاید 12 سے 14 سال كے قریب تھی، اس نے مجھے سلام كیا اور میں نے سلام كا جواب دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے مجھ سے سوال كیا، آپ پاكستانی ہیں۔؟ میں نے جواب دیا جی ہاں میں پاكستانی ہوں۔ یہاں سے اس كے اور میرے درمیان مختصر مكالمہ ہوا، ایک موضوع جس پر چند جملے گفتگو ہوئی، وہ اسرائیل كی نابودی تھی۔ میں نے سُن ركھا تھا كہ ایرانی انقلابی جوان كافی بامعرفت ہوتے ہیں اور اس كی كئی ایسی مثالیں شھداء دفاع مقدس كے بارے میں مختلف كتابوں میں پڑھنے كو ملی تھی، لیكن ابھی تک كسی زنده مثال كا مشاہده نہیں ہوا تھا۔

اسرائیل كی نابودی كے حوالے سے جو چند جملے اس جوان سے گفتگو ہوئی، اُن میں سے ایک جملہ یہ تھا، مَیں نے اس جوان سے كہا كہ ماشاء اللہ ایران میں انقلاب اسلامی كے بعد سے كافی بیداری آچكی ہے، یوم القدس كا اتنا بڑا اجتماع میں نے كہیں پر نہیں دیكھا، اس بیداری سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل كی نابودی نزدیک ہے، كیونكہ قومیں آہستہ آہستہ بیدار ہو رہی ہیں۔ تو اس جوان نے میری طرف دیكھا اور كہا كہ اسرائیل كو تو ایک دن ضرور نابود ہونا ہے، اصلاً یہ امكان نہیں ہے كہ اسرائیل نابود نہ ہو، مہم یہ ہے كہ آخر كس كے ہاتھوں سے نابود ہوگا۔؟ اس كی نابودی میں ہمارا كتنا حصہ ہوگا۔؟ كہیں ایسا نہ ہو كہ اسرائیل نابود ہو جائے اور ہمارا اس جہاد فی سبیل الله میں كس حوالے سے كوئی حصہ نہ ہو، یہ خطرناک ہے۔ سچ پوچھیں تو اُس وقت میں اس جوان كے یہ جملے سُن كر حیران ہوگیا كہ اس عمر میں اتنی معرفت۔؟

یہ واقعہ اس لیے نقل كیا ہے، كیونکہ آج اسرائیل كی نابودی ان شاء الله نزدیک ہے، لیكن دیكھنا یہ ہوگا كہ كس كے ہاتھوں سے۔؟ ہمارا كتنا حصہ ہے اس ظلم كے خلاف؟ ہم كہاں پر كھڑے ہیں؟ كہیں تاریخ میں ہمیں یہ تو نہیں كہا جائے گا  كہ اتنے زیاده مسلمانوں كے ہوتے ہوئے، اسرائیل نے كیسے فلسطینوں پر ظلم كیا؟ جیسے آج ہم كہتے ہیں کہ اتنے صحابہ كے ہوتے ہوئے نواسہ رسول اللهﷺ كو كربلا میں كیسے شہید كیا گیا۔؟ كہیں ایسا تو نہیں كہا جائے گا كہ فلسطین كو فقط ایرانی، لبنانی و یمنیوں نے آزاد كرایا تھا، پس اُس وقت 25 كروڑ پاكستانی كیا كر رہے تھے۔؟ اُس وقت ہم كیا كہیں گے۔؟ یہ كہیں گے كہ پاكستانی كركٹ كھیل رہے تھے یا پپ جی كھیل رہے تھے یا سوشل میڈیا كی لہویات میں مشغول تھے۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیئے كہ اسرائیل نے ہر صورت میں نابود ہونا ہے، كیونكہ یہ ایک جنایتكار گینگ ہے، جن كے پاس اس ظلم كی نہ كسی دین سے مشروعیت ہے، حتی یہودیت سے، نہ كسی عُرف سے مشروعیت ہے اور نہ كسی بھی معاشرہ سے مقبولیت ہے۔

اسرائیل كی مشكل، مشكل وجودی ہے، اس كا وجود سرے سے مورد اشكال ہے۔ لہذا جس كا وجود قابل اثبات نہ ہو، اس كو مٹانا و نابود كرنا كوئی مشكل امر نہیں ہے، سید مقاومت كے بقول، اسرائیل مكڑی كے جال سے بھی كمزور ہے، لیكن قابل توجہ یہ امر ہے كہ آج كے فتح خیبر میں ہمارا كتنا كردار ہے۔؟ آیا اسرائیل كے خلاف ثقافتی جنگ میں ہمارا كتنا حصہ ہے۔؟ سیاسی جنگ میں ہمارا كتنا حصہ ہے۔؟ اقتصادی جنگ میں ہمارا كتنا حصہ؟ میڈیا كی جنگ میں ہمارا كتنا حصہ ہے؟ رہبر معظم كے فرمان پر ہم كتنا جہاد تبیین كر رہے ہیں۔؟ یہ وہ نكتہ ہے كہ جس كی طرف ہمیں توجہ كرنے كی ضرورت ہے، تنہائی میں ہمیں خود سے یہ سوال كرنے چاہیئں اور اپنا محاسبہ كرنے كی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 1152273
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش