تحریر: ارشاد حسین ناصر
گذشتہ روز ایک المناک، دردناک اور بہت ہی افسردہ کر دینے خبر اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے عنوان سے موصول ہوئی تو دماغ نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا۔ اس لیے نہیں کہ ایک مرد میدان، ایک شہادت کا طلبگار، ایک ایثار گر، ایک فدا کار، ایک خالص اور مخلص قائد مقاومت نے شہادت کو گلے لگایا، بلکہ اس لئے کہ وہ ایک اسلامی حکومت جو ان کی پشتبان ہے، جس حکومت نے فلسطینی جہادیوں کو واحد سہارا دے رکھا ہے، اس کی مہمانی میں اور تہران جیسے شہر میں شہید کیا گیا۔ تہران میں ہونے والے اس سانحہ نے دل و دماغ کو ماءوف کر دیا۔ شاید ایسا کوئی سوچ سکتا ہو کہ اسرائیل اتنی بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے، شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ اتنی بڑی جہادی شخصیت یوں اس شہر میں نشانہ بن جائے گی، جو ہر مشکل وقت میں یہاں پہنچی ہوتی تھی۔
سات اکتوبر کی جنگ، اس کی تفصیلات، اس کی گہرائیاں اس کی معلومات، اس کے منصوبے، اس کے مذاکرات طے کرنا ہوں، شہید سلیمانی کے جنازہ میں شرکت کرنی ہو اور اپنے جذبات و احساسات پہنچانے ہوں یا شہید ابراہیم رئیسی کے پرشکوہ جنازے میں شرکت کرنی ہو، ہم نے ہمیشہ ان کو ایک دوست، ایک مہربان، ایک اپنے کے طور پر ہی دیکھا ہے۔ وہ ایران میں ایسے ہی نظر آتے تھے، جیسے اپنے گھر میں ہوں، وہ بانہیں کھولے رہبر معظم سے ایسے ملتے تھے، جیسے کوئی محبت کرنے والے ملتے ہیں۔ ابھی بھی وہ نئے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے پہنچے تھے۔ انہوں نے بھرپور شرکت کی اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے وہ سب کے مرکز نگاہ بنے ہوئے تھے۔
ان کا پروٹو کول کسی سربراہ مملکت سے کم نہیں تھا، دشمن نے ایسا وار کیا، جس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یعنی دشمن کی دشمنی کا تو سوچا جا سکتا ہے، مگر اس طرح اپنے ہدف کو کامیابی سے حاصل کرنا پوری دنیا کو حیرت زدہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ اسی روز دشمن نے لبنان میں ایک بہت بڑی شخصیت جن کا تعلق حزب اللہ سے تھا، حاج محسن، فواد شکر جو چالیس برس سے امریکہ اسرائیل کو مطلوب تھے، ان کو ایک رہائشی عمارت پر حملہ کرکے شہید کیا۔ ان کیساتھ بھی ایک ایرانی کمانڈر میلادی شہید ہوئے، جبکہ شام و عراق پر بھی ایسے حملے کیے گئے، جن میں مقاومتی گروہوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اگرچہ یہ تمام نقصان اپنی جگہ پر اہمیت کے حامل ہیں، لبنان میں شہید ہونے والی شخصیت بھی حاج محسن شہید، حزب اللہ کی بہت بڑی اور اہم ترین شخصیت تھے۔ وہ حاج رضوان کے بعد کمانڈر انچیف تھے اور ان کی خدمات کا دائرہ بہت بڑا ہے، جن کا تذکرہ کرنا ممکن نہیں۔
سید مقاومت نے فقط اشارہ کیا کہ یہ وہ ہستی تھے، جو بوسنیا گئے تھے اور اس وقت جب یورپ کے قلب میں ایک نوزائیدہ مسلمان مملکت کے وجود میں آنے پر سربیا نے مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھا تھا، یہی لوگ تھے، جنہوں نے بوسنیا پہنچ کر جوانوں کو تربیت دی اور انہیں جہاد و دفاع سکھایا اور خود بھی عملی طور پر میدان میں موجود رہے، جس کے اثرات سب کے سامنے آئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان پر ملینز ڈالرز انعام لبنان میں 1982ء میں ہونے والے امریکی و فرانسیسی میرینز پر خودکش حملوں کے الزام میں رکھا گیا تھا۔ ان واقعات کے بعد جو سب سے زیادہ پریشانی زیر بحث لائی جا رہی ہے، وہ تہران میں ہونے والے سانحہ کے بعد ایرانی انٹیلی جنس کی ناکامی، ایرانی دفاعی قوت کی ناکامی اور حفاظت نہ کرسکنے کا معاملہ ہے۔
اسلام خالص محمدی کے دشمن منافقین بالخصوص پاکستان کے تکفیری عناصر کو تو یہ موقع ہی چاہیئے تھا، ان کیساتھ بہت سے عام لوگ، بہت سے صحافی جو محدود انداز میں سوچتے ہیں اور معاملات کی گہرائیوں میں جانے سے قاصر دکھتے ہیں، ان کی طرف سے الزامات کی بھرمار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پراپیگنڈا مہم کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جس میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں، جبکہ کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ آخر ایران ہی کیوں نشانہ ہے اسرائیل کا؟ کیا اسرائیل انہیں قطر میں شہید نہیں کرسکتا۔؟ کیا اسرائیل انہیں ترکیہ میں شہید نہیں کرسکتا؟ کیا اسرائیل انہیں کسی بھی دوسرے ملک جہان وہ سفر کرتے تھے، شہید نہیں کرسکتا تھا؟ تو ان سب سوالوں کا جواب ہاں میں ملتا ہے۔ پھر ایران میں ٹارگٹ کرنا بہ نسبت دیگران مشکل رہا ہے تو تہران میں نشانہ بنانا کس لیے ضروری سمجھا گیا۔؟
اس لئے کہ ایران کو سبق سکھانا مقصود ہے، ایران ہی وہ مملکت ہے، جس نے فلسطینیوں کی کھل کر مدد کی ہے اور وہ چھیالیس برس سے اپنے موقف، آزادی، استقلال، حمیت، غیرت، پر ڈٹا ہوا ہے۔ اگر ایران اپنی غیرت، حمیت، آزاد خارجہ پالیسی، مقاومتی قوتوں بالخصوص فلسطینیوں کی حمایت سے دستربردار ہو جاتا تو سعودیہ، مصر، اردن، قطر، امارات بن جاتا تو ان سب سے زیادہ محفوظ، ترقی یافتہ اور امیر ملک ہوتا۔ اصل تکلیف ہی یہی ہے کہ چھیالس برس میں تمام تر سازشوں، تخریب کاریوں، دہشت گردیوں، ٹارگٹ کلنگز اور سخت ترین اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹانا ممکن نہیں ہوا، جس کی سزا ایران کو دی جاتی ہے۔یہ سانحہ بھی انہی سانحات کی ایک کڑی ہے، مگر یہ بھی ایک تاریخ ہے کہ ایران ان مراحل، ان مشکلات، ان مسائل، ان مصائب کو جھیلتے ہوئے وقت کے امام عج کی خصوصی نصرت سے سرخرو ہو کر نکلا ہے۔
باقی اہل ایران یا اہل فلسطین کی قربانیوں، شہادتوں کی تاریخ بہت طویل ہے۔ اس فہرست میں ہمیشہ ان کی قیادت اور اعلیٰ پائے کے لوگ سرفہرست رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان ملتوں میں شہادت کا جذبہ اور شہادت سے لگائو، اس کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ شہید اسماعل ہنیہ کی زندگی کو دیکھیں تو جو لوگ ان کی شہادت کو لے کر ایران کے خلاف پراپیگنڈا کرتے، انہیں جھوٹا خراج تحسین پیش کر رہے ہیں، ان کی تاریخ شہید کے ذات پر سخت تنقید اور بھونڈے الزامات سے بھری پڑی ہے۔ بس برسات میں جیسے برساتی مینڈک نکل آتے ہیں اور ہر طرف سے ٹائیں ٹائیں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، ایسے ہی طالبانی، خوارجی، تکفیری بہ یک زبان ایران پر بھونکنے میں مشغول ہیں، جن کو مناسب جواب بھی مل رہا ہے۔ اگرچہ یہ لوگ ایسے نہیں کہ ان کو اہمیت دی جائے اور ان پر اپنی طاقت خرچ کی جائے، مگر بیمار ذہن، متعصب سوچ و فکر کا اظہار کرتے بہت سے دیگر لوگوں کو بھی آلودہ کرنے کا باعث بن جاتے ہیں، لہذا ان کو مناسب جواب دینا بہت ضروری ہے۔
اگر ہم دقت کریں تو یہ سب لوگ ڈائیریکٹ یا ان ڈائریکٹ امریکہ و اسرائیل کی نمک خواری کرتے رہے ہیں، جسے اب بھی جاری رکھا ہے۔ ہم تو رہبر معظم کی زبان سے نکلے الفاظ پر یقین رکھتے ہیں، جنہوں نے مہمان کے قتل کا بدلہ فرض قرار دیا ہے تو جمہوری اسلامی اور اس کی قیادت، اس کے عسکری و سیاسی قائدین ناجائز جرثومہ اسرائیل کے وجود کے خاتمہ کیلئے اقدامات میں تیزی لائیں گے اور شہداء کا پاک لہو بالخصوص شہید اسماعیل ہنیہ کا لہو انہیں بہا کر لے جائیگا۔ یہ لہو ان شاء اللہ بہت سے کرداروں کو بھی آشکار کرنے کا باعث بنا ہے اور مزید کردار کھل کر سامنے آئیں گے۔ شہید اسماعیل ہنیہ، ان کے رفیق شہید، حاج محسن، کمانڈر میلادی کو سلام۔