0
Monday 29 Jul 2024 10:35

طبیب دل، سفیر ولایت۔۔ آغا سید علی الموسوی

طبیب دل، سفیر ولایت۔۔ آغا سید علی الموسوی
تحریر: ارشاد حسین ناصر

جب بھی پاکستان کی قومی و اجتماعی جدوجہد، تاریخ اور علماء کا کردار لکھا پڑھا جائے گا تو اس مٰن سرفپرست علماء ایک نام درخشندہ و تابندہ دکھائی دے گا، ایک ایسا نام جسے کسی بھی طور فراموش کرنا ممکن نہیں، جس نے ایک لمبے عرصہ تک پاکستان کی ملت بالخصوص نوجوانان ملت کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا اور نوجوان ان کے کردار، اخلاق، عمل، محبت، کی بدولت ان کے گرد طواف کرتے نظر آئے۔ میری مراد سفیر ولایت، آغا سید علی الموسوی ہیں، جن کی ساری زندگی موچی دروازہ، محلہ کشمیریاں کی مسجد کی مسند پر گذری اور وہ اپنے آبائی گاءوں حسین آباد سکردو میں آسودہ خاک ہوئے۔ ر مضان المبارک ۱۴۳۳ھ بمطابق 30 جولائی 2012ء کی دم فجر علم و عمل کے بحرِ بیکراں، ہم سب کے مونس و غم خوار، امامیہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن، ملت کے ماتھے پر چمکتا ستارہ، آغا سید علی الموسوی لاہور موچی دروازہ میں اس جہانِ فانی سے ابدی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔

ان کی زندگی قومیات، دینی و مذہبی تحریکوں، اجتماعی جدوجہد، قیادتوں کا ساتھ، شعور و فکر کی بیداری، دین شناسی، مدارس و مجالس کی بنیان گذاری، سوشل نیٹ ورکس کا قیام، قوم خواجگان لاہور میں تبلیغ، تعلیم، تربیت کا اہتمام، سب سے بڑھ کر آئی ایس او پاکستان کے قیام سے لیکر تا دم آخر تک گہری وابستگی،اور نوجوانان امامیہ سے بھرپور محبت کا اظہار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ آئی ایس او کو ہمیشہ پہلی ترجیح قرار دیتے تھے، باقی سب کو اس کاروان امامیہ کے بعد رکھتے تھے۔ یہ ان کی بے لوث محبت تھی، اس پودے کیساتھ جسے انہوں نے ساری زندگی سیراب کیا تھا اور قوم کو اس کے میٹھے پھل سے سیراب ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔

یوں تو آغا سید علی الموسوی کی زندگی کے تمام پہلو ہی اس بات کے متقاضی ہیں کہ دانشور و علماء اور ان سے قربت رکھنے والے ان کے ساتھ گذارے ہوئے لمحات اور ان کی متحرک، فعال زندگی و قومی، ملی، مذہبی و دینی خدمات کے تمام پہلوئوں کو تحریری و تقریری صورت میں نوجوانوں اور مستقبل کے معماروں کے سامنے لائیں، تاکہ ہماری آج کی نسل ان سے بہتر انداز میں شناسائی حاصل کرسکے اور ان کی سیرت عملی کو اپنا سکے۔ آغا سید علی الموسوی کا والدہ کی گود میں سفرِ نجف، نجف میں قیام، تحصیل علم، قم میں تحصیل علم اور علماء کرام و مجتہدین عظام سے گہری وابستگی، تحصیل علم میں مشکلات، اللہ کریم پر توکل کرتے ان کی جدوجہد، انقلاب اسلامی ایران سے ان کی دل لگی اور انقلاب اسلامی کے بانی سے عقیدت و محبت، پاکستان میں آمد اور قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کی تحریک میں فعالیت، ڈاکٹر سید محمد علی نقوی شہید کے ساتھ ان کے شب و روز۔

اسلام آباد کا معرکہ 1980ء، قرآن و سنت کانفرنس 87ء اور سب سے بڑھ کر ان کی محبت، ان کا عشق آئی ایس او پاکستان کے سیمینارز، ورکشاپس اور مرکزی کنونشن کی یادگار تقاریب میں شرکت اور نصیحت آموز فکری و تنظیمی خطابات، جن کو سن کر ہر عمر کے دوست و احباب نہ صرف لطف لیتے اور محظوظ ہوتے بلکہ ان کی باتوں کو مشعل راہ اور تجربات کا نچوڑ سمجھ کر پلے باندھ لیتے۔ یہ سب موضوعات یقیناً اس بات کے طالب اور متقاضی ہیں کہ اس بحر بیکراں میں غوطہ زنی کی جائے اور آغا سید علی الموسوی کی مسلسل فعالیت، متحرک زندگی اور ملی خدمات کا حق ادا کیا جائے۔

ہمارے خیال میں آغا سید علی الموسوی کی زندگی کے ہر پہلو پر کئی ایک مقالات لکھے جاسکتے ہیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ کار بہت وسیع ہے، بلتستان سے لے کر لاہور تک اور لاہور کے دل موچی دروازہ سے لے کر پاکستان کے گوش و کنار میں وہ اجتماعی امور کی انجام دہی اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کیلئے ہمیشہ سرگرداں و آمادہ رہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو ہمیشہ ولایت کی لڑی میں پرونے اور علماء کی سرپرستی میں تنظیمی و اجتماعی امور انجام دینے کی رہنمائی کی۔ جس طرح قائد شہید ولایت فقیہ اور فکر امام خمینی کے سچے و پکے پیروکار تھے اور اس کے مبلغ تھے، ایسے ہی آغا سید علی الموسوی نے بھی اپنی تمام زندگی ولایت کے سائے میں گذاری اور ہم نے کبھی بھی نہیں سنا کہ وہ انقلاب اسلامی ایران اور رہبر انقلاب یا ان سے مربوط اداروں و شخصیات کے مقابل آئے ہوں یا ان کے گلے و شکوے کیے ہوں۔

وہ نظریہ ولایت پر پختہ اور سختی سے کاربند دکھائی دیئے۔ کسی شخصیت کو پرکھنے کیلئے یہ لازمی ہوتا ہے کہ اس کے نظریات کو پڑھا جائے، سنا جائے، تولا جائے، سمجھا جائے۔ آغا علی الموسوی کے نظریات سب پر واضح تھے، وہ پیرو ولایت تھے اور ہمیشہ اس کے مدافع کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔نوجوانوں سے ہمیشہ ان کی یہ توقع ہوتی تھی کہ وہ علماء کی سرپرستی میں کام کو آگے بڑھائیں، علماء کے بغیر نوجوان کچھ نہیں اور نوجوانوں کے بغیر کوئی ملت فلاح نہیں پاسکتی۔ ان کا یہ کریڈٹ کیا کم ہے کہ وہ آئی ایس او سے شروع دن سے منسلک تھے اور آخر وقت تک اس کی سرپرستی فرماتے رہے، میرا نہیں خیال کہ آغا علی الموسوی کے اس تعلق پر حالات یا وقت کی گرد نے مٹی ڈال کر دھندلایا ہو، ہرگز نہیں یہ تعلق اور رشتہ ہمیشہ سے نمایاں اور آشکار رہا۔

اپنی زندگی کے بالکل آخری ایام میں جب وہ وصیتیں کر رہے تھے تو بھی انہیں آئی ایس او فراموش نہیں ہوتی، اپنی اولاد کو اس حوالے سے واضح گائیڈ لائن بھی دی۔ وہ آئی ایس او کے نام کا استخارہ نکالنے والی بات کو کس قدر لطف لے کر بیان کرتے تھے، ان کے بعد علماء کی صف میں ایسا کوئی دکھائی نہیں دیتا، جو نوجوانوں کو اپنے قریب کرکے، جذب کرتے ہوئے انہیں قلبی طور پر تبدیل کرنے کا ہنر رکھتا ہو۔۔۔! قائد شہید ایک جگہ علماء سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ "علماء بھی روحانی طبیب ہیں، یہ لوگوں کے معنوی امراض کا علاج کرتے ہیں تو لوگ اس وقت ان کا احترام کریں گے، جب وہ لوگوں کے دردوں کی دوا کریں گے، لیکن اگر انہوں نے اپنے وظیفے پر عمل نہیں کیا تو وہ اپنا احترام کھو دیں گے۔"

آغا علی الموسوی قائد شہید کی اس بات پر مکمل طور پر پورا اترتے تھے، وہ واقعاً ایک طبیب دل تھے، وہ روح کے معالج تھے، وہ بھٹکے ہوءوں کو راستہ دکھانے والے مسیحا تھے، انہوں نے ہزاروں لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دی اور لوگ ان کی دعوت پر دین کے دائرہ میں آکر زندگی و آخرت سنوار گئے۔ موچی دروازہ کی چھوٹی سی مسجد، تنگ و تاریک گلیاں اور اندرون شہر کا ماتمی و مجلسی ماحول کہاں اور نجف و قم سے کسب فیض حاصل کرنے والا، بلتستان کے سرسبز و شاداب کھلے قدرتی ماحول کا پروردہ آغا علی الموسوی کہاں، بہ ظاہر کیا مطابقت ہے۔۔؟ یہ کون سا جذبہ و احساس تھا، جس نے انہیں برس ہا برس موچی دروازہ سے نکلنے نہیں دیا؟ انہوں نے جب سے اس مورچہ کو سنبھالا، پھر خالی نہیں چھوڑا بلکہ اپنی اگلی نسلوں کو بھی اس مورچہ کی حفاظت و نگہبانی کیلئے وقف کیا، آج بھی ان کی نسل ہی اس مورچہ میں اپنے جد کی سیرت پر چلتے ہوئے ان کے کردار و عمل کے نمونے پیش کرنے میں مگن ہیں۔ بقول شاعر
آیا نہیں پلٹ کے کوئی بھی گیا ہوا
میں خود ہی جائوں گا اب انہیں ڈھونڈتا ہوا


جانے والوں نے جانا ہے، سب ہی اسی راہ کے راہی ہیں، ہر ایک کا وقت مقرر ہے، کسی کو اس سے فرار نہیں، مگر یہ بات یاد رہے کہ احادیث و اقوال آئمہ میں ایک عالم کی موت کو کو عالم (زمانہ) کی موت کہا گیا ہے، اس لیے کہ وہ ایک دور اور ایک زمانہ کو اپنے علم و ٖفضل اور اخلاق و کردار سے تعمیر کرتا ہے۔ آغا سید علی الموسوی کا بلند کردار اور اعلیٰ اخلاق، دین کی خدمت کی طویل تاریخ اس کی شاہد ہے، ان کی سیرت و کردار سب کیلئے ایک روشن مثال کی صورت میں موجود ہے، جنہیں اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کیساتھ ساتھ ان کی خدمات کی بدولت، انہیں یاد رکھنا، ان کی یادوں کے گلدستہ کو سجانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سے ہمارا ہی فائدہ ہے، ہمیں ہی درس ملتا ہے، ہمیں ہی بہت سے سوالات کے جواب مل جاتے ہیں۔ ویسے بھی اب ان کے جیسا ہمیں کوئی دکھتا بھی نہیں، ان کی طرح نوجوانوں کو قریب کرنے والا، نوجوانوں سے محبت کرنے والا، ان کی ارزش، اہمیت جاننے والا شاید ہی کوئی ہو۔ مرزا غالب نے یہی تو کہا تھا۔۔
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

آغا جی۔۔ آپ پر آپ کی جد کا لطف و کرم رہے اور جوار امام نصیب ہو۔
خبر کا کوڈ : 1150632
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش