ترتیب و تنظیم: علی واحدی
گذشتہ ہفتے افغانستان کے موضوع پر استنبول میں ایک دو روزہ اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا موضوع "نیشنل ڈسکورس فورم" National Discourse Forum تھا۔ اس اجلاس کو افغانستان میں امن کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ اس اجلاس میں افغانستان کی گشتہ حکومت کے تقریباً پچاس عہدیداروں اور سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں افغانستان کے سیاسی مستقبل پر بات چیت اور اتفاق رائے کے لیے ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ماہرین کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں اس ملاقات اور اس سے ملتی جلتی ملاقاتوں کو سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا. کابل میں برسراقتدار طالبان حکومت نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اقتدار میں اشتراک یا دوسرے سیاسی دھڑوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔
طالبان گروہ اپنی طاقت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے اور وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات، جو ان کی پوزیشن کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، ان کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ طالبان اپنے اقتدار کے پہلے دور میں بھی اپنے مخالفین سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے اور یوں مذاکرات کی تمام کوششیں دم توڑ گئیں۔ افغانستان کی تاریخ امن کی ناکام کوششوں سے بھری پڑی ہے۔ گذشتہ برسوں میں امن مذاکرات بالخصوص دوحہ معاہدہ ٹھوس اور پائیدار نتائج کا باعث نہیں بن سکا۔ یہ تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان بنیادی اصولوں پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرح کے مذاکرات سے انکار کرتے ہیں۔
اندرونی اتفاق رائے کا فقدان اور اپوزیشن کی صفوں میں تقسیم
افغانستان میں مختلف سیاسی گروہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد تقسیم ہوچکے ہیں۔ ان اختلافات کی وجہ سے کوئی بھی گروپ مشترکہ پوزیشن پر نہیں پہنچ سکتا اور اس کے نتیجے میں مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔ استنبول اجلاس میں پنجشیر محاذ اور آزادی افغانستان نامی گروہ کے نمائندوں کی عدم موجودگی بھی مختلف گروہوں کے درمیان تعاون اور اتفاق رائے کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسری جانب طالبان مختلف ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینے اور اپنی بین الاقوامی قانونی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کوششوں میں مختلف ممالک کے نمائندوں سے ملاقاتیں، بین الاقوامی کانفرنسوں اور اجلاسوں میں شرکت شامل ہے۔ اس نقطہ نظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان عالمی سطح پر اپنا ایک مثبت امیج بنانا چاہتے ہیں اور غالباً اسی وجہ سے وہ استنبول اجلاس جیسی داخلی ملاقاتوں پر ہرگز رضامند نہیں ہوں گے۔
طالبان اقتدار میں اشتراک پر آمادہ نہیں
طالبان نے بارہا اعلان کیا ہے کہ سابق سیاسی عہدیدار افغانستان میں بطور شہری رہ سکتے ہیں اور انہیں عام معافی میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ فیصلہ سازی میں شریک ہوں۔ طالبان سیاسی عمل میں انہیں شراکت دار کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے کہ طالبان افغانستان کے سیاسی مستقبل اور اقتدار میں کسی کو شریک کرنے پر یقین نہیں رکھتے، وہ صرف اپنے کردار کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ طالبان، سابق حکام کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اپنے سیاسی مقاصد کے لئے نہ کہ اقتدار میں کسی کو شریک کرنے کے لئے۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں استنبول اجلاس اور اسی طرح کے اجلاسوں کو شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اقتدار میں شریک نہ کرنے کی خواہش میں طالبان کی فیصلہ کن پوزیشن، ماضی کے ناکام تجربات، اندرونی اتفاق رائے کا فقدان، بین الاقوامی تعلقات کو وسعت دینے کی طالبان کی کوششیں اور سابقہ عہدیداروں کے تئیں ان کے مواقف یہ وہ تمام عوامل ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان اس قسم کے مذاکرات کو نہ صرف اہممیت نہیں دیتے بلکہ انہیں ناکام بنانے کی بھی کوشش کریں گے۔ جو عوامل بیان کیے گئے ہیں، ان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ طالبان نہ صرف مذاکرات اور اقتدار میں شراکت نہیں چاہتے بلکہ وہ اس طرح کے اقدامات سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال استنبول اجلاس اور اسی طرح کی دیگر کوششیں افغان بحران کے حقیقی حل کے بجائے بین الاقوامی برادری کے لیے پروپیگنڈے یا عوام کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے کے علاوہ کسی نتیجے کے حامل نہیں ہوسکتیں۔