تحریر: سید تنویر حیدر
امریکہ میں الیکشن کا معرکہ جاری ہے۔ اس الیکشن کے دونوں صدارتی امیدواروں، ڈونلڈ ٹرمپ اور کامیلا ہیرس میں اگر کوئی قدر مشترک ہے تو وہ یہ کہ دونوں صیہونیت کے پرچارک ہیں۔ ہمارے اکثر سیاستدانوں کو امریکہ کے اس الیکشن سے جتنی دلچسبی ہے شاید اتنی امریکیوں کو بھی نہیں۔ وجہ یہ کہ دشت سیاست کے یہ مجنوں جس لیلیٰء اقتدار کے وصل کے مشتاق ہیں اس کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ دربارِ واشنگٹن میں حاضری دی جائے اور وہاں کے ہر نئے سجادہ نشین کے ہاتھوں پر بیعت کی جائے۔ ہمارے یہ سیاست دان اور حکمران اپنے اس پیر کامل کو اقبال کا ”پیر رومی“ اور خود کو اس پیر کا ”مرید ہندی“ تصور کرتے ہیں۔ فارسی کی ایک حکایت ہے کہ ”پیر را مرید پراند“ یعنی پیر کو اس کا مرید اڑاتا ہے۔
گویا پیر کی کرامات اصل میں اس کے مرید کی کرشمہ سازی ہوتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں بھی پیری مریدی کا یہ رواج عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آپ کو امریکہ کے کئی مرید اپنے مرشد کی ثنا خوانی کرتے ہوئے ملیں گے۔ چودہ اگست کو جنم لینے والے نوزائدہ پاکستان پر سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اسے اس کے بانی کی آخری سانس لینے کے فوراً بعد ہی امریکہ کی مریدی میں دے دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن امریکہ ہی ہمارے حکمرانوں کا سرپرست سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ امریکہ ہمارا سرپرست نہیں ہے بلکہ ہمارے سروں پر مسلط ہے، یہ الگ بات کہ ہم امریکہ کی غلامی کے طوق کو اپنے گلے کا ہار سمجھتے ہیں اور اس کے فرمائے ہوئے کو واجب تقلید جانتے ہیں، ہمارے اہل اقتدار سیاست کو دین سے جدا سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے امریکہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔
یوں امریکہ کی اطاعت کے حوالے سے ان میں کوئی تفرقہ نہیں ہے۔ ہمارا حکومتی سیاسی نظام بھی امریکہ کے ابرووں کے اشارے پر چلتا ہے۔ ہمارا تحریری آئین تو کچھ اور کہتا ہے لیکن ہم زیادہ تر اس غیر تحریری آئین پر عمل کرتے ہیں جس کے مطابق ہمارے ملک کا حکمران بننے کا وہی اہل ہے جس میں امریکہ کی غلامی کی حد درجہ اہلیت موجود ہو۔ اگر امریکہ ہمارے کسی حکمران کو اس کی نظروں سے بچ کر کبھی سر کھجاتا ہوا بھی دیکھ لے تو وہ اسے کان سے پکڑ کر مسند اقتدار سے اتار دیتا ہے۔ لیکن آفرین ہے ایسے حکمرانوں پر بھی جو امریکہ کی اس ناپسندیدہ حرکت کے خلاف کچھ دیر کے لیے لب کشائی کرتے ہیں اور پھر زمینی حقیقت کا درک کرتے ہوئے امریکہ کے خلاف اپنے سابقہ بیانے پر خود ہی چار حرف بھیجتے ہوئے اور اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے دوبارہ امریکہ کی طرف رجوع کر لیتے ہیں اور امریکہ کی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے اپنے ہاتھ پاوں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔
امریکہ کے موجودہ الیکشن کے موقع پر بھی ہمارے سیاسی میدان کے بعض گھوڑے واشنگٹن تک پہنچنے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہیں اور ہمارے فریب خورہ عوام اپنی اپنی پسند کے گھوڑوں کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ہماری عوام کو اچھی طرح جان لینا چاہیئے کہ امریکہ کا جو بھی صدر ہو وہ کبھی بھی کسی پاکستانی حکمران کا دوست نہیں رہا۔ ہمارے حکمرانوں کے سامنے اپنے لبوں پر وہ کبھی کبھی جو مصنوعی مسکراہٹ لاتا ہے، اس کے پیچھے بھی اس کا کوئی مفاد کھیل رہا ہوتا ہے۔ آپ اس کے لیے جو کچھ بھی کریں وہ یہی سمجھے گا کہ وہ کسی گائے کے تھنوں سے دودھ دوہ رہا ہے۔
الیکشن کے نتیجے میں امریکہ میں آنے والی نئی حکومت کا پاکستان کے حوالے سے کیا مفاد ہو سکتا ہے اور پاکستان سے وہ کیا چاہے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا اور خصوصاً مشرق وسطیٰ کی آئندہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر امریکہ پاکستان سے وہی کچھ چاہے گا جو جارج ڈبلیو بش نے چاہا تھا یعنی اس نے افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان سے لاجسٹک سپورٹ چاہی تھی۔ آج اسی طرح کی سپورٹ وہ پاکستان سے ایران کے حوالے سے چاہے گا یا کم ازکم وہ خواہش ضرور رکھتا ہے۔ لہذا اس کے لیے ضروری ہے کہ ممکنہ طور پر امریکہ کی چھتری تلے پاکستان میں کوئی ایسا حکمران ہو جس سے وہ اپنے اس طرح کے مفادات حاصل کر سکے۔