تحریر: علی احمدی
اخبار رای الیوم
غاصب صیہونی رژیم کے خلاف ایران کی ممکنہ جوابی کاروائی کے خدوخال جاننے کے لیے کئی نکات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ایران نے اپنی پہلی جوابی کاروائی یعنی وعدہ صادق 1 آپریشن میں غاصب صیہونی رژیم کے فضائی دفاعی نظام کی کمزوریوں کو پہچان کر میزائل اور ڈرون حملوں کے لیے بہترین راستوں کی تشخیص مکمل کر لی تھی۔ مزید برآں، غاصب صیہونی رژیم کے حامی ممالک اور ایران کے خلاف امریکہ کے براہ راست اقدامات بھی کھل کر سامنے آ گئے تھے۔ اس آپریشن کے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد ایران نے وعدہ صادق 2 آپریشن زیادہ شدت سے انجام دیا تھا۔ اس وقت ایرانی حکام کے پاس صیہونی جارحیت کے جواب کا وقت اور نوعیت تعین کرنے کے لیے کافی حد تک فوجی اور فنی معلومات موجود ہین۔ نوعیت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ایران کی جوابی کاروائی بہت شدید اور دردناک ہو گی۔
وعدہ صادق 3 آپریشن میں زیادہ تعداد میں میزائل اور ڈرون طیارے بروئے کار لانے کے علاوہ ایسے جدید ترین میزائل استعمال ہونے کا امکان بھی پایا جاتا ہے جو اب تک سامنے نہیں آئے۔ مزید برآں، جغرافیائی لحاظ سے بھی ایران کی ممکنہ جوابی کاروائی کی وسعت پہلے سے زیادہ ہو سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اسلامی مزاحمتی گروہ بھی ایران کے ہمراہ وعدہ صادق 3 آپریشن میں شریک ہوں گے۔ یوں غاصب صیہونی رژیم کی دفاعی صلاحیتین کم ترین حد تک نیچے آ جائیں گی۔ اس آپریشن کے ممکنہ اہداف درج ذیل ہیں: ایران، غزہ، شام اور لبنان پر جارحیت میں شریک جنگی طیاروں کے حامل فوجی ہوائی اڈے، جاسوسی اور فوجی کمانڈ سنٹرز، فلسطین اور لبنان کے محاذ پر اسرائیلی فوجیوں کے اکٹھ کے مقامات، فولادی گنبد اور اس کے ریڈار، فوجی اور اقتصادی تنصیبات جیسے آئل ریفائنریز اور بندرگاہین۔
اخبار القدس العربی
حکومتوں کے سیاسی مخالفین مختلف قسم کے ہتھکنڈے بروئے کار لاتے ہیں جن میں احتجاجی مظاہرے، دھرنے، بیانیے جاری کرنا وغیرہ شامل ہیں لیکن ان میں سے سب سے زیادہ موثر ہتھکنڈہ پابندیاں ہیں جس کا مقصد مدمقابل پر دباو ڈالنا ہوتا ہے اور یہ بعض اوقات زیادہ نتیجہ بخش ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جدید تاریخ میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست رژیم کے خلاف دباو کے تمام ہتھکنڈے استعمال ہوئے لیکن ان میں سب سے زیادہ موثر سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی پابندیاں ثابت ہوئیں جن کے نتیجے میں اس رژیم کے خلاف عالمی سطح پر ایک واحد موقف ابھر کر سامنے آیا اور حتی امریکہ اور برطانیہ بھی اس کی مخالفت نہ کر سکے اور آخرکار وہ رژیم سرنگوں ہو گئی۔ غاصب صیہونی رژیم کے بارے میں بھی یہی بات درست ہے اور فوجی کاروائی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اس نسل پرست رژیم کے خلاف رائے عامہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
لبنانی اخبار الاخبار
غاصب صیہونی رژیم لبنان کے سرحدی قصبوں میں اپنی فوجی پوزیشن مضبوط نہیں کر سکی۔ یہ ناکامی ایسے وقت سامنے آئی ہے جب صیہونی فوج کئی بار ان علاقون میں پیشقدمی کی کوشش کر چکی ہے لیکن آخرکار حزب اللہ لبنان کے تابڑ توڑ حملوں سے متاثر ہو کر مقبوضہ فلسطین میں کئی سو میٹر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ حزب اللہ لبنان صیہونی فوجی یونٹس کو میزائل اور ڈرون طیاروں سے نشانہ بنا رہے ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران شدید جھڑپیں انجام پائی ہیں جن کے بعد صیہونی فوج جنوبی لبنان کے اہم شہر الخیام سے مکمل طور پر باہر نکل گئی ہے۔
شام کا اخبار الوطن
جنوبی لبنان میں گذشتہ چھ ہفتوں کے حالات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ میدان جنگ میں اسلامی مزاحمتی فورسز کو فوجی برتری حاصل ہے۔ تل ابیب کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش ظاہر کرتی ہے کہ وہ جنگ جاری رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
عراق کا اخبار المراقب
ایران میں امام خمینی رح کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی سے لے کر اب تک مسئلہ فلسطین، جو اس سے پہلے ایک عرب مسئلہ جانا جاتا تھا، ایک اسلامی مسئلے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اسی طرح انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد مسئلہ فلسطین علاقائی اور عالمی سطح پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اگرچہ خطے میں ایران کی مرکزیت میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف ایک مضبوط اسلامی مزاحمتی محاذ تشکیل پا چکا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ کچھ عرب ممالک اعلانیہ طور پر فلسطین کاز سے دستبردار ہو چکے ہیں اور غاصب صیہونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس وقت خطے میں جاری جنگ دو محاذوں کے درمیان ہے جس کی ایک جانب اسلامی مزاحمتی محاذ ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور اس سے سازباز کرنے والے عرب ممالک ہیں۔
یمن کا اخبار المسیرہ
اگرچہ امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور مدد اور حمایت سے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم گذشتہ تقریباً ایک سال سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور اس نے گذشتہ چند ہفتوں سے لبنان میں بھی بے گناہ شہریوں کی قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے، لیکن ہمیں یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ عرب ممالک بدستور پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس بارے میں بہتر تو یہ ہے کہ عرب اقوام میدان میں آئیں اور غدار عرب حکمرانوں کے خلاف کھل کر اپنے موقف کا اظہار کریں تاکہ خطے میں مسلمانوں کا خون مزید بہنے سے روکا جا سکے۔ اس وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کا ایک بڑا حصہ گویا کسی اور سیارے میں زندگی بسر کر رہا ہے اور اسے خطے میں رونما ہونے والے حالات کا علم ہی نہیں ہے۔