0
Monday 4 Nov 2024 11:32

جمہوریہ آذربائیجان سے مشکوک خبریں

جمہوریہ آذربائیجان سے مشکوک خبریں
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

صیہونی حکومت کے ایران پر حملے کو کئی دن گزر چکے ہیں۔ عالم اسلام سمیت خطے میں اس اقدام کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی ہے، لیکن جمہوریہ آذربائیجان نے ابھی تک اس کی مذمت نہیں کی ہے۔ عراق اور ترکی سے لے کر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین تک سب نے اس جارحیت کی مذمت کی، لیکن آذربایجان کی بدوستور خاموشی معنی خیز ہے۔ پڑوسی حکومتوں اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی پیچیدگی اور الجھاؤ کو سمجھنے کے لیے یہ ایران کے خلاف جارحیت ایک بہترین کسوٹی ہے۔ اگرچہ خطے کی متعدد غیر خود مختار حکومتوں نے دباؤ میں آکر صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کی طرف قدم اٹھائے ہیں، لیکن بعض دیگر نے کمزور طرز حکمرانی کے باوجود صیہونی دباؤ کا مقابلہ کیا ہے۔ آذربائیجان کی حکومت اپنی سرزمین پر نسبتاً خود مختاری اور آزادی کا دعوٰی کرتی ہے، لیکن اس نے اپنی آگاہی، مرضی اور متعصبانہ منصوبہ بندی کی بنیاد پر تل ابیب کے ساتھ مسلسل تعلقات بڑھائے ہیں۔

صیہونی حکومت کے حوالے سے بعض سرکردہ ممالک کے مقابلے میں تل ابیب کے ساتھ باکو کے تعلقات اتنے پیچیدہ نہیں ہیں۔ مصر اور اردن سے لے کر متحدہ عرب امارات اور بحرین تک، ان حکومتوں کے صیہونی حکومت سے تعلقات آذربائیجان کی طرح گہرے اور وسیع نہیں ہیں۔ تہران کے حوالے سے باکو کی تل ابیب کو بلیک میل کرنے کی تاریخ اتنی طویل ہے کہ اسے چھپایا نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ رواں سال اگست میں تہران میں شہید اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد باکو حکومت نے ایران کے ردعمل سے خوفزدہ ہوتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اس کی سرزمین میں صیہونیوں کا کوئی اڈہ نہیں ہے۔ یہ دعویٰ دو دن سے بھی کم عرصے کے بعد جھوٹا ثابت ہوگیا، جب صہیونی فوج کے اہلکاروں نے آذربائیجان کی سرزمین سے اپنے فوجیوں کو واپس بلایا۔ اگرچہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ فوجی آذربائیجان میں رہنے والے پہاڑی یہودی ہیں، جو آذربائیجان میں باقاعدہ سفر کرتے رہتے ہیں، لیکن حقیقت کچھ اور ہی تھی۔

اب ایرانی سرزمین پر تل ابیب کے حملے کے بعد جن ممالک نے اپنی سلامتی کی ذمہ داری قابضین پر چھوڑ رکھی ہے اور اپنے فوجی اور سکیورٹی اڈے صیہونی حکومت کو لیز پر دے رکھے ہیں، انہیں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ایران کے ممکنہ ردعمل سے ہوشیار رہنا چاہیئے۔ صیہونی حکومت اور قفقاز کی حکمت عملی کے بارے میں تحقیقاتی ادارے کارنیگی مڈل ایسٹ سنٹر کی تفصیلات کے مطابق قفقاز کے ممالک کے ساتھ صیہونی حکومت کا تعامل موجودہ صدی کی پہلی دہائی کے آخر میں بڑھا ہے۔ اس علاقے میں صیہونی حکومت کی پالیسی دو اہم مراحل سے گزری ہے۔ پہلا مرحلہ 2008ء سے پہلے کا تھا اور جس میں اس نے جارجیا پر توجہ مرکوز کی۔ اس نے جارجیا کی فوج کو تربیت دی اور روس سے بچنے کے لئے اس ملک کو جدید آلات اور ڈرون فروخت کرنے کی اجازت دی۔ یوں صیہونی حکومت نے آذربائیجان میں اپنی اسٹریٹجک موجودگی کو مضبوط کیا۔
 
موساد کے لیے ایک ٹھکانہ
دوسرا مرحلہ قفقاز میں صیہونی حکومت کا آذربائیجان کے ساتھ تجارتی تعلقات کا تھا، جس کے نتیجے میں ان کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 4 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ صیہونی حکومت آذربائیجان کا تیل خریدتی ہے اور آئندہ عشرے میں اس ملک سے 12 ارب مکعب میٹر گیس درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت نے 2017ء اور 2020ء کے درمیان آذربائیجانی فوج کو اس کی ضرورت کے تقریباً 60 فیصد ہتھیار فراہم کئے۔ دوسری طرف، تل ابیب نے اپنی تیل کی ضروریات کا تقریباً 40 فیصد آذربائیجان سے حاصل کیا ہے۔ اکتوبر 2022ء میں، صیہونی حکومت کے اس وقت کے وزیر جنگ بینی گانٹز نے آذربائیجان کا ایک خفیہ دورہ کیا، جہاں انہوں نے فوجی اور سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے۔ معروف اخبار ہارٹز نے اس سے قبل انکشاف کیا تھا کہ آذربائیجان موساد کے لیے ایک اڈے کے طور پر کام کرتا ہے اور صیہونی حکومت اس ملک میں ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھنے کے لیے ایران کے ساتھ اپنی جغرافیائی قربت کو استعمال کرتی ہے۔

ایران نے اپنے پڑوسی ملک پر صیہونی حکومت کی جاسوسی اور نگرانی کے لیے سہولیات فراہم کرنے کا الزام بارہا لگایا ہے۔ صیہونی حکومت سائبر حملوں کے خلاف  اس علاقے کو مضبوط بنانے کے لیے سائبر سکیورٹی کے میدان میں بھی آذربائیجان کی مدد کرتی ہے۔ یورپی مرکز مطالعات برائے انسداد دہشت گردی جیسے ادارے نے اطلاع دی ہے کہ گذشتہ 7 سالوں کے دوران تقریباً 92 کارگو طیاروں نے صیہونی حکومت سے فوجی سازوسامان آذربائیجان پہنچایا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے بارہا صیہونی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ جمہوریہ آذربائیجان کی سرزمین کو ایران کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بنانے کے لیے ایک اڈے میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ صیہونی حکومت کے سابق صدر شمعون پیریز کے بیانات کے مطابق صیہونی حکومت مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کا بنیادی عنصر آذربائیجان کو سمجھتی ہے اور کارنیگی سنٹر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ایران کو گھیرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

باکو کیجانب سے تل ابیب کو دیا جانیوالا تاوان ایران کی قومی سلامتی کیخلاف کیوں ہے؟
ایران اور آذربائیجان کے تعلقات پچھلی دہائیوں کے دوران اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ یہ اتار چڑھاؤ ایک طرف قرہ باغ کے تنازعے اور دوسری طرف آذربائیجان کی صیہونی حکومت سے قربت کی وجہ سے ہے۔ صیہونیوں سے قربت ایرانیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ایران اور آذربائیجان کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تناؤ سے ظاہر ہوتا ہے کہ باکو ایران کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے، خاص طور پر کچھ ایسے مظاہر کے بعد جو تل ابیب کے ساتھ قریبی تعلقات میں اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان مظاہر میں باکو کے سیاسی، سکیورٹی اور انٹیلی جنس ڈھانچے میں تل ابیب کے اثر و رسوخ میں توسیع کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کی طرف سے آذربائیجان کی انفارمیشن ٹیکنالوجیز کو تقویت دینا شامل ہے۔

عسکری شعبے میں قریبی تعاون
تل ابیب اور باکو کے درمیان عملی اور خفیہ تعلقات کی بدولت آذربائیجان اسوقت صیہونی حکومت کی فوجی صنعت کے لیے ایک ارب ڈالر کی مارکیٹ بن گیا ہے۔ 2011ء میں، اس اتحاد کو 1.6 بلین ڈالر کے معاہدے کے ذریعے مضبوط کیا گیا تھا، جس میں باراک میزائل سسٹم اور اسرائیلی ایرو اسپیس انڈسٹریز (IAI) کے سرچر اور ہیرون ڈرون شامل تھے۔ اس عسکری تعاون میں، ڈرون تیار کرنے کے لیے آذربائیجان کی فوجی صنعت کی وزارت اور صیہونی حکومت کی ایروناٹکس ڈیفنس سسٹم کمپنی کے درمیان ایک مشترکہ منصوبہ بنایا گیا۔ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء سے 2021ء تک آذربائیجان نے اپنے ہتھیاروں کا 69 فیصد حصہ صیہونی حکومت سے درآمد کیا۔ صیہونی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے باکو کو جدید جاسوسی ٹیکنالوجیز بھی فراہم کی ہیں، جن میں صیہونی حکومت کا پیگاسس جاسوسی سافٹ ویئر بھی شامل ہے۔ مزید برآں، صیہونی حکومت کی ایلٹا سسٹمز کمپنی نے باکو کو نگورنو کاراباغ کے جامع ڈیجیٹل نقشے فراہم کیے، جس سے آذربائیجانی افواج کو آرمینیا کے خلاف جنگ میں اپنی کارروائیوں میں نمایاں فائدہ پہنچا۔

آذربائیجان میں "سمارٹ گاؤں" کا شوشہ
2020ء کی کاراباغ جنگ نے جنوبی قفقاز میں طاقت کے توازن میں ایک اہم تبدیلی پیدا کی، جس نے 1994ء سے 2020ء تک موجود حفاظتی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ اس جنگ نے خطے میں ترکی کا اثر و رسوخ بڑھایا، لیکن ایران کے لیے سب سے اہم تشویش آذربائیجان اور ایران کی سرحد کے ساتھ نئی قبضہ کی گئی زمینوں میں صیہونی حکومت کا ابھرنا تھا۔ آذربائیجان نے 2010ء کے اوائل سے صیہونی حکومت کے ساتھ مضبوط فوجی اور سکیورٹی تعاون قائم کیا۔ تاہم اس نے ایران کے ساتھ 135 کلومیٹر طویل سرحد پر جمہوریہ نگورنو کاراباغ کے کنٹرول کے حوالے سے تہران کو یقین دلایا کہ ان علاقوں کو ایران مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن 2020ء کی جنگ نے اس صورتحال کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا اور آذربائیجان نے تعمیر نو کی سرگرمیوں اور سمارٹ ویلز بنانے کے بہانے ان علاقوں میں صیہونی حکومت کو داخل ہونے کی اجازت دی۔ ایران کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کو آذربائیجان کی سرزمین سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دے کر باکو نے خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے اور کھلم کھلا ایران مخالف موقف اختیار کیا ہے۔ سمارٹ دیہات سے مراد ایسے علاقوں یا چھوٹے دیہات ہیں، جہاں پائیدار اقتصادی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ البتہ ماہرین کی نگاہ میں قرہ باغ کے آزاد کردہ علاقے میں، سمارٹ گاؤں صیہونی حکومت کے ڈیٹا بیس بنانے کا اہم اقدام ہے۔

ایران کے خلاف صیہونی اڈے کا قیام
Haaretz اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ صیہونی حکومت نے تیل کے عوض اربوں ڈالر مالیت کا فوجی سازوسامان آذربائیجان کو فروخت کیا ہے، جس کے بدلے میں آذربائیجان نے صیہونی حکومت کو ایرانی سرحد پر اڈہ فراہم کیا ہے۔ اس اخبار نے غیر ملکی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ "آذربائیجان نے صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس ایجنسی (موساد) کو ایک ایسا ایڈوانس بیس قائم کرنے کی اجازت دی ہے، جو اس ایجنسی کو ایران میں ہونے والے واقعات پر کڑی نظر رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح آذربائیجانی حکام نے اس علاقے میں ایک ہوائی اڈہ قائم کیا ہے، تاکہ صیہونی حکومت ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا فیصلہ کرنے کی صورت میں اس اڈے کو استعمال کرسکے۔

اخبار نے یہ بھی انکشاف کیا کہ موساد کے جن کارندوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اہم دستاویزات کو چرایا تھا، ان دستاویزات کو آذربائیجان کے ذریعے صیہونی حکومت کو منتقل کیا گیا تھا۔ آذربائیجان کی سرحد کے قریب صیہونی فضائی اڈے کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قفقاز کا علاقہ عملی طور پر صیہونی حکومت کے اثر و رسوخ کے دائرے میں ایران کو گھیرنے اور اس کے خلاف ایک نیا محاذ بنانے کی کوشش ہے۔ تل ابیب کا دعویٰ ہے کہ قفقاز میں اس کا اثر و رسوخ لبنان، شام، عراق، یمن، غزہ اور مغربی کنارے میں تہران کے اثر و رسوخ کے خلاف ہے، جس کی وجہ سے صیہونی حکومت محاصرہ میں ہے۔
 
سائبر وار
گذشتہ عرصے میں صیہونی حکومت اور آذربائیجان کے درمیان فوجی اور سکیورٹی کے شعبوں میں تعلقات میں نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ یہ تعاون سائبر سکیورٹی کے شعبے میں خاص طور پر بہت اہم ہے۔ صیہونی حکومت نے اس حوالے سے آذربائیجان کی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے میں مدد کی ہے۔ مثال کے طور پر NSO گروپ کمپنی نے صیہونی حکومت کو آذربائیجان کو Pegasus جاسوسی سافٹ ویئر فراہم کیا ہے۔ 17 نومبر 2022ء کو آذربائیجانی حکام نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون میں سائبر سکیورٹی سینٹر قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ مرکز سائبر سکیورٹی کے شعبے میں ماہرین اور ٹرینرز کو تربیت دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

اس منصوبے کا ہدف اگلے تین سالوں میں 1000 سے زائد افراد کو تربیت دینا ہے۔ یہ کارروائی واضح طور پر آذربائیجان کی سائبر سکیورٹی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور سائبر خطرات سے پیدا ہونے والے خطرات کو کم کرنے کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے۔ ایران برسوں سے صیہونی حکومت کے ساتھ سائبر جنگ میں مصروف ہے، ایسے میں تہران نے اعلان کیا ہے کہ وہ تل ابیب سے کسی بھی سائبر حملے کے لیے پوری طرح چوکس ہے۔ بعض مطالعات میں ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان سائبر جنگ کی ترقی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان جنگ کے منظر نامے کو اہم سول انفراسٹرکچر تک بڑھا دیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1170692
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش