اسلام ٹائمز۔ ايرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ عالمی قوتيں ايران اور عراق پر قبضہ جمانے کے مقصد سے ہميشہ دونوں ملکوں کو کمزور بنانے کے درپے رہتی ہيں، ايران اور عراق کی قوموں کے درميان اختلاف پيدا کرنے کيلئے امريکا اور اسرائيلی حکومت کی سازشيں کبھی کامياب نہيں ہو سکتيں، دونوں ملکوں ميں مختلف شعبوں ميں دو طرفہ تعلقات کے فروغ کی راہ ميں کوئی رکاوٹ نہيں پائی جاتی۔
یہ بات انہوں نے تہران ميں عراق کے وزيراعظم نوری المالکی سے گفتگو میں کی۔ دونوں رہنماوں نے دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور مشرق وسطی ميں امن کے قيام کيلئے تمام توانائيوں سے استفادہ کئے جانے کی ضرورت پر زور ديا۔ اس موقع پر ايرانی صدر نے علاقے ميں ايران اور عراق کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کی قوميں ہوشياری کے ساتھ اپنی سالميت اور آزادی کا بھرپور دفاع کر رہی ہيں۔ ملاقات ميں عراق کے وزيراعظم نوری المالکی نے بھی ايران اور عراق کے مثالی و خوشگوار تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف شعبوں ميں دو طرفہ تعاون کے فروغ کی ضرورت پر زور ديا۔
ذرائع کے مطابق ایران اور عراق نے شام کے بحران سمیت علاقے کی تبدیلیوں کے بارے میں بھی اب تک تقریبا یکساں موقف اختیار کیا ہے۔ عراق میں دہشتگرد گروہوں کی کارروائیوں اور اس ملک کی تقسیم کے لیے ہونے والی سازشوں کے باوجود وزیراعظم نوری مالکی علاقائی تبدیلیوں کے میدان میں بھرپور موجودگی سے غافل نہیں ہیں اور وہ اس میدان میں مؤثر کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شام کے بحران کے بارے میں نوری مالکی اور ان کی حکومت کا موقف اور اس ملک کے امن و استحکام اور ارضی سالمیت کے احترام کی ضرورت پر زور دینے کا موقف، شام کے بحران کے بارے میں علاقے کے دیگر ممالک سے زیادہ ایران کے موقف سے قریب ہے۔ دونوں ملکوں نے حکام نے شام کے بحران کو پرامن طور پر حل کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ شام کی حکومت کو اپنے اصلاحات کے پروگرام پر عمل درآمد کے لیے وقت دیا جانا چاہیے۔ نوری مالکی کے دورہ تہران کے دوران بہت سے مسائل پر بات چیت اور صلاح و مشورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں اور ان تعلقات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔