0
Friday 15 Nov 2024 15:16

عرب حکمرانوں کی زبان فلسطین اور دل اسرائیل کے ساتھ

عرب حکمرانوں کی زبان فلسطین اور دل اسرائیل کے ساتھ
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

عرب سربراہی کانفرنس، جو 11 نومبر کو سعودی عرب کے شہر ریاض میں منعقد ہوئی، جہاں عرب ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف بھی شریک ہوئے۔ عرب سربراہی کانفرنس کے اختتام پر ایک تفصیلی اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے۔ بہت زیادہ کوشش کے باوجو دبھی دنیا میں کسی نے بھی عرب سربراہی اجلاس کی حمایت میں کوئی تجزیہ نہیں کیا ہے۔ نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے۔؟ شاید اس وجہ سے بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ دنیا کے سیاسی تجزیہ نگار عرب حکمرانوں کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بہرحال اعلامیہ میں پہلی بات کی گئی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی جائے۔ میرے لئے یہ بات یہاں سمجھ سے بالا تر ہے کہ کون سی جنگ بندی کی جائے؟ جبکہ غزہ میں تو کھلم کھلا جارحیت کی جا رہی ہے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ عرب سربراہی کانفرنس میں شریک حکمرانوں کا معذرت خاہانہ رویہ یقیناً امریکہ اور اسرائیل کے خوف کی واضح جھلک ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ یہ سارے حکمران اپنے ذاتی مفادات کو عزیز رکھتے ہیں۔

اعلامیہ میں دوسری بات بھی اسی طرح کمزور موقف ہے کہ لبنان پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اس مذمت کی کیا حیثیت ہے۔؟ مذمت تو عام آدمی بھی کر رہا ہے۔ کیا لبنان میں ہونے والی اسرائیلی جارحیت کو یہ عرب حکمران جارحیت بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔؟ اگر ایسا نہیں کہہ سکتے تو پھر مذمت سے بہتر ہے کہ خاموش رہتے۔ ایک اور حیرت انگیز بات جو اعلامیہ میں بیان کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ آزاد تحقیقات کی جائیں۔؟ حیرت کی بات ہے کہ جو اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل آج 76 سال اور خاص طور پر گذشتہ ایک سال میں ہونے والی نسل کشی اور جارحیت کو نہیں روک سکی ہے، وہ کس طرح کسی معاملہ کی آزاد تحقیقات انجام دے سکتی ہے۔ اس کھوکھلے معاہدے نے بھی عرب حکمرانوں کے دل کی بات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ حقیقت میں کوئی عملی کام کرنا ہی نہیں چاہتے۔

عرب سربراہی اجلاس میں غزہ میں نہتے اور بے گناہ شہریوں کا محاصرہ غیر قانونی عمل قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو غزہ کی پٹی سے فوری نکلنے اور رفح بارڈر کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہاں بھی یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر یہ مطالبہ کس سے کیا جا رہا ہے۔؟ رفح کراسنگ مصر، امریکہ اور اسرائیل کی باہمی رضامندی سے بند ہے کہ جہاں سے فلسطینیوں کے لئے امداد جانے نہیں دی جاتی تو اب اس مطالبہ کی بجائے کوئی عملی اقدام ہونا چاہیئے یا فقط ایک کاغذی مطالبہ کافی ہے، جو اس عرب سربراہی اجلاس کے خاتمہ کے بعد خود بخود اپنی اہمیت بھی کھو دے گا۔؟ عرب اسلامک ممالک کے سربراہی اجلاس میں لبنان کی خود مختاری اور سلامتی کے تحفظ کیلئے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی گئی ہے۔ ان عرب سربراہوں کا ایک ایک مذاق دیکھئے۔ یہ عالمی برادری سے کہتے ہیں کہ لبنان میں جارحیت کو روکا جائے۔ کون سی عالمی برادری۔؟

کیا وہی عالمی برادری جو سنہ1948ء سے تاحال فلسطین میں نسل کشی اور ظلم پر خاموش ہے۔؟ کیا عالمی برادری کو گذشتہ ایک سال میں غزہ اور لبنان میں ہونے والا ظلم اور سفاکیت دیکھنے کے لئے عرب سربراہی کانفرنس کے اعلامیہ اور مطالبہ کی محتاجی ہے۔؟ یہ وہی عالمی برادری ہے، جس کے ہاتھ فلسطینی اور لبنانی عوام کے خون سے رنگے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ عرب حکمران اس نام نہاد عالمی برادری سے مطالبہ کر رہے ہیں، جو خود ان عرب حکمرانوں کی فلسطین اور لبنان سے متعلق سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اعلامیہ میں فلسطینی سرزمین پر غیر قانونی صیہونی بستیوں کے قیام کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ سوال پھر وہی اٹھ رہا ہے کہ کہ کیا یہ صیہونی بستیاں آج آباد ہو رہی ہیں؟ اور ان کو روکنے کے لئے اب تک عرب حکمرانوں کی جانب سے کون سا عملی قدم اٹھایا گیا ہے۔؟

عرب سربراہی اجلاس میں نام نہاد عالمی برادری سے مطالبوں اور ڈھکی چھپی مذمتوں سے زیادہ بہتر تو یہ تھا کہ عرب حکمرانوں کو غیرت اور حمیت یاد دلائی جاتی اور کہا جاتا کہ آج سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر بتائیں کہ کون غاصب اسرائیل کے ساتھ کتنے ارب ڈالر کی تجارت کر رہا ہے۔ عرب حکمرانوں کے اس اجلاس میں یہ بات ہونا چاہیئے تھی کہ مسلمان اور عرب حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بند کریں۔ عرب سربراہی اجلاس میں یہ بات ہونا چاہیئے تھی کہ غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لئے عملی اقدام کیا جائے گا۔ عرب سربراہی اجلاس میں فلسطین اور لبنان کی مزاحمتی تحریکوں کو کس طرح مزید مضبوط کیا جائے، ایسے موضوعات زیر بحث لانا چاہیئے تھے۔ غزہ میں بھوک اور قحط ختم کرنے کے لئے کون کون سی عرب حکومتیں عملی اقدامات کریں گی۔

اسرائیل کے ساتھ تعلق رکھنے والے مسلمان اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات ختم کئے جاتے اور ان کی او آئی سی اور عرب لیگ جیسی نام نہاد تنظیموں سے رکنیت کا خاتمہ کئے جانے پر بات کی جاتی۔ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ عرب سربراہی اجلاس میں شریک حکمرانوں کی زبانوں پر فقط فلسطین اور لبنان کا ذکر رہا، لیکن فلسطین اور لبنان کے مظلوم عوام کی مدد کے لئے دل سے کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔ یمن کے ایک آرٹسٹ کمال اشرف نے عرب سربراہی اجلاس کی عکاسی کرتے ہوئے ایک کارٹون بنایا ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ عرب حکمرانوں کی زبان پر فلسطین ہے، لیکن ان کے دل اسرائیل کے ساتھ ہیں اور ان کے دلوں میں اسرائیل بستا ہے۔ حقیقیت حال بھی یہی ہے کہ عرب حکمرانوں کی زبانیں فلسطین کے ساتھ ہیں جبکہ ان کے دل اور ہتھیار اسرائیل کے ساتھ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1172748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش