اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس سربراہ فاروق عبداللہ نے جموں سمارٹ سٹی پروجیکٹ کی حالت پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے جموں میں بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی پر تنقید بھی کی۔ نیشنل کانفرنس کے صدر نے "دربار مو" کی بحالی کے ذریعے جموں و کشمیر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بحالی پر بھی زور دیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے صحافیوں کو بتایا کہ آپ کا نام نہاد سمارٹ سٹی دیکھ کر مجھے شرم آتی ہے، میں اسے سمارٹ سٹی نہیں سمجھتا، مجھے کہیں بھی کام کرنے والی لائٹ نظر نہیں آتی، یہ کیسی سمارٹ سٹی ہے۔ فاروق عبداللہ نے جموں سمارٹ سٹی پروجیکٹ کا کام انجام دینے والوں پر طنز کیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف اسے سمارٹ سٹی کہنے سے یہ بن نہیں جاتی۔ فاروق عبداللہ نے جموں کو صحیح معنوں میں سمارٹ سٹی بنانے کے لئے مزید اقدامات پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ علاقے کے لوگ ان کوتاہیوں کو خاموشی سے برداشت کر رہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس صدر نے کہا کہ دربار مو صرف دکانیں چلانے کے بارے میں نہیں تھی، اس نے کشمیر کے مسلمانوں اور جموں کے ہندوؤں کے درمیان ایک رشتہ پیدا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس بندھن اور دوستی کو واپس لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہم آہنگی سے رہنا چاہیئے اور ان رشتوں کو بحال کرنا چاہیئے۔ دربار مو سے مراد ریاستی سیکرٹریٹ اور دیگر سرکاری دفاتر کو گرمائی دارالحکومت سرینگر سے سرمائی دارالحکومت جموں منتقل کرنا ہے۔ یہ روایت 1872ء میں مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دور حکومت میں شروع ہوئی تھی، یہ 2020ء تک جاری رہی لیکن یونین ٹیریٹری انتظامیہ نے اعلان کیا کہ جموں اور سرینگر دونوں میں ریاستی سیکرٹریٹ برقرار رکھے جائیں گے۔
فاروق عبداللہ سے جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کے ذریعہ ہندوتوا کو بیماری قرار دینے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا کہ التجا مفتی جو بیان دیتی ہیں وہ بطور رہنما ان کا اختیار ہے۔ التجا مفتی نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لئے ہندوتوا کا استعمال کررہی ہے۔