رپورٹ: سید عدیل زیدی
پاراچنار کے محاصرے کو 75 دن مکمل ہوگئے ہیں، راستوں کی مسلسل بندش کے باعث علاقہ میں ہر شے کی شدید قلت ہوچکی ہے، انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، ذرائع کے مطابق اب تک ادویات اور علاج معالجہ کی مطلوبہ سہولیات میسر نہ آنے کے باعث 100 سے زائد معصوم بچے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔ چھ سے پاراچنار میں احتجاجی دھرنا جاری ہے، جس کی حمایت میں ملک کے اہم شہروں میں اظہار یکجہتی کیلئے دھرنے شروع ہوچکے ہیں۔ حالات ہر گزرتے دن کیساتھ بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، تاہم پاکستان بھر میں بھرپور عوامی ردعمل کے باوجود صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتیں ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لے رہیں، جرگہ، جرگہ کا ’’کھیل‘‘ بھی کسی کام نہیں آیا، پاراچنار کے مظلومین کے ان زخموں کے مرہم رکھنے کی بجائے حکمران الٹا نمک پاشی پر تلے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر ’’انصاف‘‘ کی علمبردار صوبائی حکومت مسلسل غلط بیانی کر رہی ہے۔
اس صورتحال میں گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت صوبائی اپیکس کمیٹی کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا، جس میں توقع کی جا رہی تھی کہ مسئلہ کرم کا کوئی حل تلاش کیا جائے گا، تاہم اس اہم اجلاس میں بھی ایسے فیصلے کئے گئے، جس نے اہلیان کرم کو شدید مایوس کیا۔ اپیکس کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ، کور کمانڈر پشاور، چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اور انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا کے علاوہ اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں ضلع کرم میں جاری صورتحال کا خاص طور پر جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ علاقہ میں مورچوں کا مکمل خاتمہ اور اسلحہ اکٹھا کیا جائے گا، بنکرز کے خاتمے اور اسلحہ اکٹھا کرنے تک مشکلات رہیں گی، تاہم صورت حال بہتر ہو جائے گی۔ اس موقع پر وفاقی اور صوبائی حکومت نے مشترکہ اقدامات اور مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا اور کہا گیا کہ عمائدین جرگہ کے ذریعے دونوں فریقوں سے بات چیت کی جائے گی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حالات بہتر ہوتے ہی سڑکیں اور راستے کھل جائیں گے، جبکہ کرم کو ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی جاری رہے گی۔ مرکز اور صوبہ مشترکہ طور پر فیصلے کرتے ہوئے حالات بہتر کریں گے۔ مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا کہنا تھا کہ بنکرز اور اسلحے کے خاتمے کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں ہے، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کرم میں مستقل امن کے لیے کوشاں ہیں، کابینہ فیصلے کے مطابق اسلحہ اور بنکرز کا خاتمہ ضروری ہے۔ صوبائی ایپکس کمیٹی کے فیصلوں نے کرم کی زمینی حقائق سے ہٹ کر فیصلے کئے، جس پر شدید ردعمل بھی آیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر علامہ جہانزیب علی جعفری نے ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وقت تھا متاثرہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے اور انسانی بنیادوں پر روڈ کو کھولنے کا ہے، مگر افسوسناک بات ہے کہ ملک کے بڑوں نے روڈ کو مشروط بند کیا ہوا ہے کہ جب تک اسلحہ جمع نہیں کروایا جائے گا، روڈ بند رہے گا۔
علامہ جہانزیب علی نے بتایا کہ وہاں کے عوام سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا آپ نے ہمیں سکیورٹی دی ہے۔؟ کیا آپ نے افغان بارڈر کو دہشتگردوں کی آمد و رفت سے پاک کیا ہے۔؟ کانوائے پر حملہ سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں ہوا، لیکن معصوم شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکا، ضلع کرم کے شیعہ، سنی عوام دہشتگردوں کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں، لہذا حکومت سنجیدگی سے روڈ کھول کر حالات کو نارمل کرے، کیونکہ اس وقت ضلع کرم کے شیعہ، سنی مشکل میں ہیں، غذائی اجناس اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ اعتماد بحال ہونے کے بعد میں اپنے فیصلوں کو نافذ العمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت عوامی اعتماد کھو رہی ہے، جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں اور عوام شدید سرد موسم میں کئی مسائل کا شکار ہیں، اگر وفاقی اور صوبائی حکومت اپنے فیصلے پر اسی طرح بضد رہی تو ایک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، جس کی تمام تر ذمہ داری انہی قوتوں پر ہوگی، مجلس وحدت مسلمین اب کرم کے عوام کی مشکلات پر خاموش نہیں رہے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی ترجمان کی جانب سے دو فریقین کی بات کرنا ناانصافی اور خلاف عقل و قانون ہے کہ سرعام سکیورٹی فورسز اور مسافروں پر دہشت گردی کرنے والوں اور عام شہریوں کو ایک صف میں کھڑا کیا جائے۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء کے خدشات اور تحفظات یقنی طور پر حقائق پر مبنی ہیں، پاراچنار تین جانب سے افغانستان میں گھرا ہوا علاقہ ہے، جہاں عوام کو تین جانب سے بیرونی دشمن سے خطرات ہیں، وہیں مقامی دہشتگردوں اور طالبان نواز سخت گیر قبائل کا بھی سامنا ہے، ایسے میں پاراچنار کے طوری بنگش قبائل کیسے خود کو نہتا کرکے اسلحہ حکومت کے حوالے کرسکتے ہیں۔؟ وہ حکومت جو ایک سڑک نہیں کھلوا سکتی، وہ انہیں مکمل طور پر تحفظ کی کیسے ضمانت فراہم کرسکتی ہے۔؟ تاریخ گواہ ہے کہ پاراچنار کے عوام کا اسلحہ کبھی بھی ریاست یا ریاست کے کسی ذمہ دار کیخلاف استعمال نہیں ہوا، یہ اسلحہ کبھی کسی بے گناہ کیخلاف نہیں اٹھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو فوری طور پر پاراچنار کا مسئلہ حل کرنا ہوگا، بصورت دیگر حالات ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر جاسکتے ہیں۔