تحریر: سید رضا میر طاہر
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے منگل کے روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے عبوری چیئرمین کے نام ایک خط میں اسرائیل کی طرف سے حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 23 دسمبر 2024ء بروز پیر کی شام کو صیہونی حکومت کی وزارت دفاع کے ملازمین کے ایک پروگرام میں شرکت کے دوران، اسرائیل کے وزیر جنگ یسرائیل کاٹز نے کھلے عام اور انتہائی بے شرمی کے ساتھ اسرائیل کی طرف سے حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی ذمہ داری کو قبول کیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے قتل میں اس حکومت نے تصدیق کی ہے کہ وہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے تہران آئے تھے۔ یہ کھلا اعتراف پہلی بار سامنے آیا ہے، جس میں اسرائیلی حکومت نے اس گھناؤنے جرم کی ذمہ داری کو عوامی طور پر قبول کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اس سینیئر سفارت کار نے مزید لکھا ہے کہ "اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے ایک کی خود مختار سرزمین میں ایک سیاسی رہنماء کے قتل کا یہ ڈھٹائی اور بے شرمی سے اعتراف ایک بار پھر یو این او کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اسرائیلی حکومت کا یہ دہشت گردانہ اور جارحانہ اقدام اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اسرائیل کی قابض اور دہشت گرد حکومت علاقائی اور بین الاقوامی امن کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔ اسرائیل نے پیر 23 دسمبر تک اسماعیل ہنیہ کے قتل کا کبھی اعتراف نہیں کیا تھا، لیکن ایران اور حماس نے ان کی موت کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا تھا۔ اسرائیل کے وزیر جنگ یسرائیل کاٹز نے پیر کے روز یمن کی عوامی جماعت انصاراللہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بارے میں کہا ہے کہ ہم نے جو کچھ تہران، غزہ اور لبنان میں ھنیہ، سنوار اور نصراللہ کے ساتھ کیا، وہی حدیدہ اور صنعاء میں بھی کریں گے۔ واضح رہے کہ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کو اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران تشریف لائے تھے۔
31 جولائی 2024ء بروز بدھ کی صبح صیہونی حکومت کی طرف سے ایک دہشت گردانہ حملہ کیا گیا اور اس مجرمانہ اقدام کو علاقائی اور عالمی سطح پر شدید منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور کئی ممالک نے اس دہشت گردانہ کارروائی کی مذمت کی ہے۔ اس سلسلے میں اگست 2024ء کے اوائل میں، اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کو ایسے قتلوں پر سخت تشویش ہے، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بنتے ہیں اور جس سے تشدد میں اضافے کا خطرہ بڑھتا ہے اور اس سے خطے میں نقل مکانی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ناوابستہ تحریک (جس کے 120 ممالک باقاعدہ ممبر ہیں، 20 ممالک مبصر ممبر ہیں اور 10 بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس میں موجود ہیں) نے 6 اگست 2024ء کو ایک بیان میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کی دہشت گردی کی کارروائی (جو تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کی شہادت کا باعث بنی اور بین الاقوامی قوانین اور اسلامی جمہوریہ ایران کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی صریح خلاف ورزی ہوئی) کی شدید مذمت کی۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ "یہ دہشت گردی کا واقعہ اس وقت پیش آیا، جب اسماعیل ھنیہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کی سرکاری دعوت پر اسلامی جمہوریہ ایران کے نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے۔ ناوابستہ تحریک اور اقوام متحدہ کے ماہرین کی جانب سے تہران میں اسماعیل ھنیہ کے قتل میں اسرائیل کے دہشت گردانہ اقدام کی شدید مذمت اور عالمی تنظیموں کی طرف سے اسے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت وسیع مذمت کے باوجود غاصبانہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ مغرب، خاص طور پر امریکہ عالمی سطح پر تیزی سے نفرت اور الگ تھلگ ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے اپنے اقدامات سے ثابت کیا ہے کہ فلسطینیوں اور اس کے دشمنوں کے خلاف اس کے اقدامات میں کوئی سرخ لکیر نہیں ہے اور وہ اپنے مخالفین کو تباہ کرنے کے لیے کسی بھی طرح کا حربہ استعمال کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتا ہے۔
بلاشبہ اسرائیل کے ان مجرمانہ اور انسانیت سوز اقدامات کی وجہ سے اسے بین الاقوامی عدالتی اداروں اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر بار بار تنقید اور مذمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایران میں شہید اسماعیل ھنیہ کے قتل کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ جس پر غور کیا جانا چاہیئے، وہ یہ ہے کہ شہید اسماعیل ھنیہ کے قتل میں صیہونی حکومت کا اقدام اسلامی جمہوریہ کی خود مختاری اور ارضی سالمیت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اسی لئے اسرائیل کے اس اقدام پر ایران کا وعدہ صادق ایک اور دو نامی ردعمل اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد پر جائز اور قانونی تھا۔ صیہونی وزیر جنگ کی جانب سے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے نام ایک مراسلے میں لکھا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے اس گھناؤنے حرکت کی ذمہ داری قبول کرکے ثابت کر دیا کہ ایران کا جوابی حملہ مکمل طور پر جائز تھا۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایروانی نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ صیہونی وزیر جنگ یسرائیل کاٹز نے کھلے عام اور مکمل بے شرمی کے ساتھ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے، جو ایران کے صدر کی حلف برداری کے پروگرام میں شرکت کے لیے تہران آئے ہوئے تھے۔ ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایروانی نے لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کے ایک رکن کی سرزمین پر کسی سیاسی رہنماء کے قتل کا اعتراف اس بات کی علامت ہے کہ صیہونی حکومت ایک سرکش حکومت ہے، جسے اس کے دہشت گردانہ اور جارحانہ اقدامات کے لیے ذمہ دار ٹھہرانا ہوگا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس اعتراف کے بعد یکم اکتوبر سن 2024ء کو ایران کی جوابی کارروائی کے قانونی اور جائز ہونے کا ثبوت ایک بار پھر سامنے آگيا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اسرائیل کی دہشت گرد اور غاصب حکومت علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے، جسے لگام دینے کی شدید ضرورت ہے۔