تحریر: محمد اکرم رضوی
وطن عزیز اس وقت اندرونی اور بیرونی خلفشار کا شکار ہے، آپ کسی بھی شعبہ کو دیکھیں، اضطرابی کیفیت ملے گی، مگر اہل سیاست، سیاست کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، موجودہ تلخ حالات میں مولانا فضل الرحمان نے مدارس کی آڑ لیتے ہوئے حکومت کیخلاف جنگ کا اعلان کیا ہے، جس تنازعے کو مولانا بنیاد بنا کر حکومت کو لانگ مارچ کی دھمکیاں دے رہے ہیں، وہ مسئلہ تو اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان نے وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے درمیان معاہدے کی صورت میں 29 اگست 2019ء کو طے پا گیا تھا۔ اس معاہدے پر وطن عزیز کے تمام مکاتب فکر کے چوٹی کے علماء کرام مفتی منیب الرحمان سربراہ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان، مفتی محمد تقی عثمانی، سربراہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان، پروفیسر ساجد میر صدر وفاق المدارس سلفیہ پاکستان، مولانا عبدالمالک رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان، ڈاکٹر محمد نجفی وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، ڈاکٹر عطاء الرحمن، صاحبزادہ عبدالمصطفیٰ ہزاروی، مولانا محمد افضل حیدری، ڈاکٹر مولانا عادل خاں، قاری حنیف جالندھری، مولانا یاسین ظفر اور اس وقت کے وفاقی وزیر شفقت محمود اور وفاقی سیکرٹری تعلیم ارشد مرزا کے درمیان طے پایا تھا، جن کے معاہدے کے مسودے پر دستخط بھی موجود ہیں۔
معاہدہ میں طے پایا کہ دینی مدارس و جامعات اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کیساتھ طے شدہ رجسٹریشن فارم کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم کیساتھ رجسڑیشن کے پابند ہونگے، جبکہ وزارت ملک بھر میں رجسٹریشن کیلئے 12 دفاتر قائم کرے گی۔ وزارت ہی مدارس اور جامعات کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کی واحد مجاز اتھارٹی ہوگی، جو مدارس و جامعات وزارت کیساتھ رجسٹرڈ نہ ہونگے، وفاقی حکومت انہیں بند کرنے کی مجاز ہوگی اور جو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کریں گے، ان کی رجسٹریشن بھی منسوخ کر دی جائے گی، جبکہ بینک اکاؤنٹ کے حوالہ سے جو ادارے وزارت سے رجسٹرڈ ہونگے، انہیں وزارت بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کیلئے معاونت فراہم کرے گی اور وزارت سٹیٹ بینک کو مراسلہ لکھے گی کہ وہ رجسٹرڈ مدارس کے بینک اکاؤنٹ کھولے۔ وزارت سے رجسٹرڈ ادارے ہی غیر ملکی طلبہ کو تعلیم کی سہولت مہیا کریں گے، وزارت کی سفارش پر ان طلبہ کو جو مدت تعلیم (09 سال) ہوگی، حکومتی قواعد و ضوابط کے تحت ان کیلئے ویزہ کے اجراء میں معاونت کی جائے گی۔
رجسٹرڈ مدارس میں ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں گے، میڑک اور ایف اے کے بعد فنی تعلیمی بورڈ سے الحاق کیا جائے گا۔ مدارس اپنی نصاب کمیٹیوں کے ذریعے عصری مضامین بتدریج میٹرک اور ایف اے کی سطح تک اپنا منظم پلان جاری کریں، میٹرک اور ایف اے کے امتحانات اپنی صوابدید کے مطابق فیڈرل بورڈ یا ملک کے کسی بھی بورڈ سے امتحان دلوائیں گے، نیز جب وزارت تعلیم مدارس کی رجسٹریشن کا نیا نظام روبہ عمل ہوگا، تو جن مدارس کی پہلے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹریشن ہوئی، اسے تمام حکومتی ادارے تسلیم کرنے کے پابند ہونگے اور جن کی رجسٹریشن نہیں ہوئی، انہیں سابق طریقہ کار کے مطابق رجسٹر کیا جائے گا۔ 2019ء کے اس معاہدے پر تاحال دونوں فریقین متفق اور خوش اسلوبی سے کار بند ہیں۔
اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کیساتھ معاہدے کے بعد حکومت نے وفاقی وزارت تعلیم میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ریلیجیئس ایجوکیشن قائم کیا، جس کے تحت ملک بھر کے مدارس کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہوا۔ ڈی جی آر ای میں اس وقت تک 18000 سے زائد مدارس وزارتِ تعلیم سے رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، جبکہ 22 لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات جو حصول تعلیم کیلئے کوشاں ہیں، ان کے مستقبل کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان اور حکومت کے مابین اسی معاہدے کی روشنی میں بننے والے ڈائریکٹوریٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوئے، جس پر اکابر علماء و مشائخ کے دستخط ہیں، مولانا فضل الرحمٰن اس بات پر زور لگا رہے ہیں کہ مدارس کی رجسٹریشن وزارت تعلیم سے واپس لے کر وزارتِ کامرس اینڈ انڈسٹریز کو دی جائے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا مدارس تعلیمی ادارے ہیں یا کوئی فیکٹریاں، کارخانے اور دکانیں ہیں، جنہیں وزارت صنعت و تجارت کی طرف دھکیلنے کیلئے آپ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اگر آپ کی خواہش یا مفاد کے تحت ایسا ہو بھی گیا تو ان اٹھارہ ہزار مدارس کا کیا بنے گا، جو پہلے ہی ڈی جی آر ای میں رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا مدارس کو وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت سے نکال کر وزارتِ کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سپرد کرنا بڑا عجیب و غریب مطالبہ ہے، مدارس بھی تعلیمی ادارے ہیں، ان کا وزارتِ تعلیم کے ساتھ ہی رجسٹرڈ ہونا مناسب عمل ہے۔ مدارس فیکٹریاں یا کمپنیاں نہیں، جنہیں وزارتِ کامرس اینڈ انڈسٹریز کے تحت رجسٹرڈ کروایا جائے، مدارس رجسٹریشن پر ریاستِ پاکستان کا مولانا فضل الرحمان سے بلیک میل نہ ہونا خوش آئند اور جراتمندانہ اقدام ہے۔ میرا اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے ان اکابرین سے بھی دست بستہ سوال ہے، جن کے حکومت کیساتھ معاہدے پر دستخط موجود ہیں کہ اس وقت مدارس کی رجسٹریشن کو لے کر مولانا فضل الرحمان نے ملک بھر میں جو اُدھم مچا رکھا ہے، آپ کمبل اوڑھے کب تک سوتے رہیں گے؟ یا تو آپ کھل کر مولانا کیساتھ کھڑے ہو جائیں، یا قوم کو حقیقت حال سے آگاہ کریں۔ آپ کی خاموشی شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے۔
مولانا کی ترجیحات کیا ہیں، وہ ساری قوم جانتی ہے، مگر فی الحال مدارس کو مولانا کی سیاست کا ایندھن بننے سے بچانا ہوگا۔ اس حوالے سے اکابرین کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ لاکھوں طلبہ اور ہزاروں مدارس کے مستقبل پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مولانا کی تازہ لانچنگ محض 26 نومبر سے توجہ ہٹانے کی ایک حکومتی کوشش ہے، کیونکہ مولانا غیر اعلانیہ طور پر حکومت کا حصہ ہیں اور تمام معاملات طے شدہ اور طے شدہ سکرپٹ پر مولانا عمل پیرا ہیں، نہ مولانا لانگ مارچ کریں گے اور نہ ہی حکومت کیساتھ اپنی کمٹمنٹ ختم کریں گے، میچ فکس ہے، حکومت اور مولانا کی کوئی لڑائی نہیں، بالکل دوستیاں برقرار ہیں، جان بوجھ کر لیڈر بنایا جا رہا ہے اور میڈیا کو ایشو دیا جائے گا، 22 اکتوبر کو 26ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی، جبکہ اگلے دن اسکا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری ہوگیا جبکہ مدارس بل کو اعتراضات کیساتھ مسترد کر دیا گیا، اب دو ماہ بعد مولانا فضل الرحمان کو مدارس بل کیوں یاد آگیا ہے، دو ماہ پہلے کہاں تھے۔؟ چاہیئے تو یہ تھا جب مدارس بل منظور نہیں ہوا تھا، مولانا اس وقت اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کرتے، مگر شاید اس وقت لانچنگ نامکمل تھی۔