اسلام ٹائمز۔ سنبھل سانحہ اور اجمیر درگا ہ پر ہندوؤں کے دعوے کے پس منظر میں جمعیت علماء ہند کی جانب سے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے تعلق سے داخل پٹیشن پر 12 دسمبر کو دوپہر ساڑھے تین بجے چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی خصوصی بینچ سماعت کرے گی۔ اس بینچ میں جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن ہوں گے۔ گزشتہ سماعت پر وقت کی تنگی کی وجہ سے چیف جسٹس آف انڈیا نے سماعت ملتوی کئے جانے کا حکم جاری کیا تھا۔
واضح رہے کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی جانب سے تحریر کردہ خط کی روشنی میں چیف جسٹس آف انڈیا نے اس اہم مقدمہ کی سماعت خصوصی بینچ کے روبرو کئے جانے کا حکم جاری کیا ہے۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی برقراری اور اس کے مؤثر نفاذ سے متعلق سپریم کورٹ آف انڈیا میں صدر جمعیت علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل پٹیشن پر سینیئر ایڈووکیٹ راجو رام چندرن اور ورندا گروور بحث کریں گے۔ جمعیت کے وکلاء عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں پر بھی عدالت میں اپنے دلائل پیش کریں گے۔
جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اسے ایک امید افزاء پیشرفت قرار دیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ انصاف پھر سے سربلند ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 1991ء میں قانون سازی جس حالات میں ہوئی تھی، وہ آج کے جیسے ہی حالات تھے، ہر طرف نفرت کی آگ لگائی جارہی تھی اور لوگوں کو قانون شکنی پر اکسایا جا رہا تھا، چنانچہ اس قانون کے ذریعہ منافرت کے اس دہانہ کو ہمیشہ کے لئے بند کر دینے کی کوشش کی گئی تھی، جو فرقہ پرست عناصر نے ملک کے امن و امان اتحاد اور آپسی بھائی چارہ کو آگ لگا دینے کے لئے کھول دیا تھا۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ 1991ء کے قانون کی موجودگی کے باوجود ایک بار پھر جھوٹ اور منافرت کے اس دہانہ کو کھول دیا گیا ہے اور مسلمانوں کی تمام اہم عبادت گاہوں، خانقاہوں اور درگاہوں پر مندر ہونے کے دعوے کئے جارہے ہیں، یہ سوال اب غیر اہم ہوچکا کہ 1991ء کے قانون کی دانستہ خلاف ورزی کیوں کی جارہی ہے۔ کیونکہ سوال توان سے کیا جاسکتا ہے، جو جواب دے یہاں تو سب کچھ آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اکثریت کی زعم اور غرور میں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ عدالت نے معاملہ کی حساسیت اور اہمیت کو سمجھا اور جمعیت علماء ہند کے وکلاء کی درخواست پر سماعت کے لئے ایک خصوصی بینچ تشکیل دے دی، جس کی سربراہی خود چیف جسٹس کریں گے، ہمیں امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ ملک کے امن و اتحاد اور یکجہتی کی ضمانت دینے والے اس قانون کی آئینی حیثیت کو نہ صرف برقرار رکھا جائے گا بلکہ اس قانون کے مؤثر نفاذ کے تعلق سے عدالت حکم بھی جاری کرے گی۔