0
Thursday 21 Nov 2024 18:41

ہمیشہ کوئٹہ، پاراچنار اور گلگت بلتستان ہی سافٹ ٹارگٹ کیوں ہوتا ہے؟ کاظم میثم

ہمیشہ کوئٹہ، پاراچنار اور گلگت بلتستان ہی سافٹ ٹارگٹ کیوں ہوتا ہے؟ کاظم میثم
اسلام ٹائمز۔ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ خیبرپختونخواہ کے ضلع کرم اوچت میں دہشتگردوں کی جانب سے کانوائے پر ہونے والے حملے اور شہادتوں سے دل انتہائی غمزدہ ہے۔ یہ حملہ سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ سیاسی کارکنان کو دیواروں میں چنوانے کی بجائے دہشگردوں کا گھیرا تنگ کرتے تو ہم بہادری کی داد دیتے۔ دہشتگرد مکمل طور آزاد ہے، جو کبھی ہماری فوجی جوانوں پر حملہ کرتے ہیں کبھی چائنیز پر اور کبھی مظلوم اہلسنت اور شیعہ عوام پر کرتے ہیں۔ دوسری طرف کے پی کے کی حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ وزیراعلٰی خیبر پختونخواہ سکیورٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے نہیں سکتے تو کھلے لفظوں میں اعلان کریں کہ عام شہری اپنی ڈیفنس خود کرے۔ 
 
انہوں نے کہا کہ ہم سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں دہشتگرد اتنے آزاد کیوں ہیں۔ پرامن شہریوں بلخصوص مکتب اہلبیت پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ ہمیشہ کوئٹہ، پاراچنار اور گلگت بلتستان ہی سافٹ ٹارگٹ کیوں ہوتا ہے۔ ریاست ہمیں سیلف ڈیفنس کا حق دے، ہم اپنی جان و مال کی حفاظت خود کریں گے۔ ہمیں حفاظت کے لیے کسی اور کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ ٹارگٹ کلنگ ہو یا دہشتگردانہ حملہ ہماری ہی نسل کشی آخر کب رکے گی۔ ضیاء الحق کے دور سے اب تک منظم نسل کشی جاری ہے اور ہمیں ہر میدان میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیا ہمیں اس ملک کو بنانے کا صلہ اس طرح دیا جا رہا ہے۔
 
کاظم میثم نے کہا کہ حساس ذمہ داریوں پہ تعیناتی کے لیے بھی ہمارے اوپر سوالات کھڑے جاتے ہیں۔ کیا اتحاد بین المسلمین کے لیے جدوجہد کرنے کا یہی ثمر ہے۔ ہمارے صبر کا بار بار امتحان نہ لیا جائے۔ جینے کا حق ہم سے ہی چھینا جاتا ہے۔ ہمارے خون سے یہ سرزمین رنگین ہو چکی ہے۔ ملک کی چوبیس کروڑ عوام یہ بتائے کہ اس ملک میں اہل تشیع پر حملے ہوتے ہیں، اہل سنت پر حملے ہوتے ہںی، اہل حدیث پر حملے ہوتے ہیں، سکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملے ہوتے ہیں، چائنیز پر حملے ہوتے ہیں اگر کسی طبقے پر آج تک حملے نہیں ہوئے تو وہ ہمارے حکمرانوں کے آقا امریکنز ہیں۔ آج تک کسی امریکیوں پر پاکستان میں کوئی حملہ نہیں ہوتا۔ بلکہ انکی ایمبیسی کے آگے احتجاج کرنے والوں پر پولیس حملہ آور ہوتی ہے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سمجھنا ہوگا یہ حملے منظم ہیں اور اصل دشمن کو پہچاننا ہوگا۔ ہمیں دہشتگردی پر پالیسی بدلنی ہوگی۔ دہشتگردوں کو کیپیٹل سمجھنے کی بجائے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ مذاکرات نہیں بلکہ مفسدین فی الارض قرار دیکر سرکوبی کرنی ہوگی۔ تکفیری نرسریوں کو ہر صورت بند کرنی ہوگی۔ یہ بھی قبل از وقت واضح کر دوں کہ گلگت بلتستان میں سکیورٹی کے حوالے اچھی اطلاعات نہیں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1173938
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش