اسلام ٹائمز۔ شام کے وزیر خارجہ "بسام الصباغ" نے وزارت خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار ایران کا دورہ کیا۔ جس میں انہوں نے اپنے ایرانی ہم منصب "سید عباس عراقچی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات ایرانی وزارت خارجہ کی عمارت میں انجام پائی۔ اس ملاقات کے بعد دونوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر بسام الصباغ نے اپنے دورہ ایران پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی رژیم کے بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے خطے کو سنگین مسائل درپیش ہیں۔ اس بحران کا آغاز گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں فلسطین سے شروع ہوا اور اب لبنان بھی اسرائیلی جرائم کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباََ شام کی سرزمین پر صیہونی رژیم نے 100 سے زائد حملے کیے۔ انہوں نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے سے ملحقہ قونصلیٹ پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے اس حملے کو ایران کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی سرزمین کے دفاعی حق پر ایران کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم نے متفقہ طور پر کہا کہ ہر صورت صیہونی جارحیت کا خاتمہ ہونا چاہئے اور متاثرین تک انسانی امداد پہنچنی چاہئے۔ ہم نے اس رژیم کے گھناؤنے جرائم کی مذمت کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان جرائم کا جواب دیا جانا چاہئے۔
بسام الصباغ نے مزید کہا کہ ہم اسرائیلی قبضے کی ہر کوشش کا مقابلہ کریں گے۔ ہم ہر دراندازی کا جواب دینے کے حوالے سے ایران کے دفاعی حق کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1967ء سے شروع ہونے والے گولان ہائٹس سمیت عرب سرزمین پر صیہونی قبضے کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ یہ خطہ اس وقت تک امن و خوشحالی کا منہ نہیں دیکھ سکتا جب تک اسرائیل کا ناجائز قبضہ باقی ہے۔ بسام الصباغ نے کہا کہ میں نے اپنے ایرانی ہم منصب سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے اور خطے میں سلامتی و استحکام کو یقینی بنانے کے لئے تعاون پر زور دیا۔ انہوں نے بعض ممالک کی جانب سے شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے داخلی امور میں کسی بھی بیرونی مداخلت کو مسترد کیا۔ ہم اس نکتے کی جانب متو٘جہ ہیں کہ بعض ممالک ہماری خودمختاری کے خلاف تباہ کن اقدامات کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان غیر انسانی و غیر قانونی اقدامات اور اپنی ملت کے خلاف ان سنگین سازشوں کو روکنے کے لئے ہمارے درمیان ہم آہنگی مزید بڑھے گی۔ بسام الصباغ نے کہا کہ شام کی حمایت کرنے پر ہم ایران کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ مشکل کی ہر گھڑی میں تہران کی جانب سے دمشق کی حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
شام میں امریکہ کی مدد سے دہشت گرد گروہوں کو ایک بار پھر مضبوط کئے جانے اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کے ذریعے دہشت گردی کی نئی لہر کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں شامی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارے خطے میں اسرائیلی کشیدگی میں اضافہ پرانے امریکی و صیہونی منصوبے کے تحت ہوا ہے جس کا مقصد خطے کا نیا نقشہ ایجاد کرنا ہے۔ دہشت گرد بھی اسی مقصد کے حصول کا ایک ذریعے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم 2011ء سے اب تک ان دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں اور انہیں بعض علاقوں سے باہر نکالنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ تاہم اِن میں سے بعض گروہ شمالی و مغربی شام میں سرگرم ہیں اور ان سے ہماری لڑائی جاری ہے۔ شام کے وزیر خارجہ نے کہا کہ صیہونی رژیم اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہو چکی ہے اور اس وقت اس اتفاق کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیں شمالی شام میں مصروف رکھیں تا کہ ہم فلسطین و لبنان میں کشیدگی میں اضافے پر توجہ نہ دے سکیں۔