تحریر: سید اسد عباس
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد کابینہ کے لیے افراد کی نامزدگیوں نے عالمی سطح پر تشویش اور امریکی معاشرے میں بے چینی کو جنم دیا ہے، خاص طور پر امریکی مسلمان جنھوں نے انتخابات میں ٹرمپ کی حمایت کی تھی، اس وقت شدید تذبذب کا شکار ہیں۔ امریکی آئین کے مطابق ٹرمپ 20 جنوری 2025ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور اپنی نامزد کابینہ کی منظوری امریکی سینیٹ سے لیں گے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگلی امریکی سینیٹ میں بھی ٹرمپ کی جماعت کو اکثریت حاصل ہوگی۔ اس لیے واضح امکان ہے کہ ان کے نامزد افراد امریکی سینیٹ کی جانب سے من و عن قبول کر لیے جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق بعض نامزدگیوں کے حوالے سے ریپبلیکن سینیٹرز نے اعتراضات اٹھائے ہیں، تاہم ٹرمپ کو فیڈرل عہدوں پر تعیناتی کے لیے سینیٹ کی مرضی درکار ہے، جبکہ صدر کے ایگزیکٹو آفس یا صدارتی کمیشن میں تعیناتی خود صدر کی صوابدید سے ہوتی ہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی کمپین کے دوران میں یوکرائن اور مشرق وسطیٰ میں جاری جنگوں کے خاتمے کے وعدے کیے تھے، جنھوں نے بہت پذیرائی حاصل کی، لیکن جس چیز کو سمجھنے میں ٹرمپ کا ووٹر ناکام رہا، وہ ان تنازعات کے پرامن تصفیے کے حوالے سے روڈ میپ کی کمی تھی۔ آج ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ کابینہ اور اس میں موجود اسرائیل کے حامیوں کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی مستقبل کی انتظامیہ فیصلہ کن طور پر ایک ایسے ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے تیار ہے، جو اسرائیل (صہیونی مسیحیوں) کی سخت گیر پالیسیوں سے ہم آہنگ ہو۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے، جس سے مسلمان ووٹرز کو بالخصوص اور عام امریکیوں کو بالعموم دھوکہ دیا گیا ہے۔
اگرچہ تمام تر امریکی حکومتیں اسرائیلی جرائم کی سرپرستی کرتی ہیں، تاہم ٹرمپ کے پہلے دور حکومت کے دوران میں اسرائیل کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی غیر متزلزل حمایت اس حکومت کا خاصہ تھی، جس کے مظاہر میں "یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنا، امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی، عربوں اور اسرائیلیوں کے مابین معاہدہ ابراہیمی کی دلالی، اسرائیل اور کئی عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا، اسرائیلی بستیوں کی حمایت اور یو این آر ڈبلیو اے (اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینان) کی مالی امداد" شامل ہیں۔ یہ اقدامات اقوام متحدہ کے تجویز کردہ دو ریاستی حل کے فریم ورک سے واضح علیحدگی کی علامات تھے۔ ٹرمپ کی دوبارہ اقتدار میں واپسی ان پالیسیوں کو مزید گہرا کرنے کی علامت ہے۔
ٹرمپ کابینہ کے نامزد افراد جیسا کہ اسرائیل کے لیے امریکہ کے سفیر کے طور پر مائیک ہکابی کی نامزدگی، مارکو روبیو کی بطور وزیر خارجہ تعیناتی، ٹرمپ انتظامیہ کی اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے ساتھ واضح صف بندی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہکابی، امریکہ میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا ایک مضبوط حامی سمجھا جاتا ہے اور فلسطینی ریاست کے قیام کا مخالف ہے۔ اسی طرح نامزد وزیر خارجہ روبیو کا حماس کے خلاف سخت گیر موقف، عراق میں امریکی افواج بھیجنے کی حمایت، لیبیا میں امریکی افواج کی تعیناتی کی حمایت، ایران کے خلاف سخت پابندیوں کی حمایت، نیوکلیئر معاہدے کو ردی کرنے کا موقف، یمن میں حوثیوں کے خلاف سعودی مداخلت کی حمایت اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی غیر متزلزل حمایت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
امریکہ کے وزیر دفاع کی نامزدگی ایک ایسے شخص کے حصے میں آئی ہے، جس نے "امریکی صلیبی جنگ: آزاد رہنے کے لیے ہماری جنگ" نامی کتاب لکھی ہے۔ وہ اپنی کتاب میں امریکی کروسیڈ کو انسانی آزادی کی ایک مقدس جنگ قرار دیتا ہے۔ ہکابی، روبیو اور پیٹ جیسے انتہاء پسند اراکین کی تعیناتی سے نیو یارک ٹائمز کا وہ تجزیہ درست نظر آرہا ہے، جو اس اخبار نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر کیا کہ "ٹرمپ کا دوسرا دورِ حکومت پہلے دورِ حکومت کے مقابلے میں زیادہ غیر یقینی اور خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ پہلے دورِ حکومت کے مقابلے میں دوسرے دورِ حکومت میں ٹرمپ کو انتظامی معاملات میں آئین، قانون اور مروجہ روایات سے ہٹ کر من مانی کرنے سے روکنے والے اعتدال پسند اور تجربہ کار مشیر میسر نہیں ہوں گے۔
اس مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اردگرد ایسے مشیر اور ماہرین نے گھیرا ڈال رکھا ہے، جو اُن کے ہم خیال ہیں اور وہ ٹرمپ کو اپنے اختیارات کے استعمال اور فیصلہ سازی میں احتیاط، اعتدال پسندی اور آئین و قانون کی سخت پاسداری کا مشورہ دینے کے بجائے اس کی یک طرفہ، انتہاء پسند اور من مانی پر مبنی سوچ میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیں گے۔" میرے خیال میں یہ ٹرمپ کا آخری دور صدارت ہے، اس کے اسرائیل نواز(اوینجیلیکل) ووٹر، تنظیمیں، چرچ اور امریکہ پر اثر انداز ہونے والے دیگر ادارے اس دور میں اسرائیل یا دوسرے الفاظ میں اوینجیلیکلز (صہیونی مسیحیوں) کے لیے زیادہ سے زیادہ مفادات کی جمع آوری کی کوشش کریں گے۔
اس بات کا بہت حد تک امکان ہے کہ ٹرمپ کی آنے والی انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں لین دین کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے خطے میں اسرائیلی مفادات کو مزید تقویت دے گی اور فلسطینیوں کی ریاست اور انصاف کی خواہشات کو نظر انداز کیا جائے گا۔ یہ پالیسی چین اور روس کے علاقے میں بڑھتے ہوئے رسوخ کو کم کرکے اسرائیل کے علاقائی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے پر مرکوز ہوگی۔ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی جائے گی اور اسرائیل مخالف مزاحمتی محاذ کو کمزور کیا جائے گا، تاکہ اسرائیل کو درپیش سالمیت کے خطرات سے نبرد آزما ہوا جاسکے۔