تحریر: اتوسا دیناریان
19 نومبر کے دن بچوں کا عالمی دن ایسے عالم میں منایا گیا کہ صیہونی حکومت کے ہاتھوں غزہ اور لبنان میں بچوں کے قتل عام کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ایک ایسا مسئلہ جس نے اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کی تشویش کو حد درجہ بڑھا دیا ہے۔ یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ اور لبنان میں بچوں کا قتل عام معمول کا واقعہ بن چکا ہے اور یہ معمول انتہائی خطرناک ہے۔ جیمز ایلڈر نے اعلان کیا ہے کہ پچھلے دو مہینوں میں لبنان میں 200 سے زیادہ بچے ہلاک اور 1100 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بچوں کا قتل عام ایک معمول کی کارروائی میں تبدیل ہوچکا ہے اور اس بے حسی کے نتیجے میں انتہائی تشویشناک واقعات پر سکوت طاری ہے، جسے نارملائزیشن کہا جانے لگا ہے۔
غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک 15 ہزار سے زائد فلسطینی بچے شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ کے مختلف علاقوں میں کئی بچے بھوک کی وجہ سے بھی موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ شائع شدہ اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 4000 فلسطینی بچے بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور لاتعداد بھوک، بیماری، نقل مکانی اور بنیادی ضروریات کی کمی کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں نے ایک سال میں غزہ کو "بچوں کے قبرستان" میں تبدیل کر دیا ہے۔ دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ غزہ کے بچوں کی ہلاکتیں اب رائے عامہ کو متاثر نہیں کر رہی ہیں، اور میڈیا میں ان بچوں کی تصاویر کی بار بار اشاعت بھی معمول کا واقعہ بن گئی ہے۔
بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن، جس پر اسرائیل نے بھی دستخط کیے ہیں، انہوں نے سرکاری اور واضح طور پر بچوں کے جینے کے موروثی حق پر زور دیا ہے۔ اس بیان میں فلسطینی بچوں کے قتل عام اور ان پر تشدد کو روکنے اور بچوں کے لیے بنیادی زندگی کی سہولیات تک رسائی پر زور دیا گیا ہے۔ تاہم نہ صرف یہ کہ غزہ کی جنگ میں اس کنونشن کی شقوں پر عمل درآمد کا مشاہدہ نہیں کیا گیا بلکہ غاصب اسرائیلی حکومت کے جرائم پر عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی نے صیہونی حکومت کو مزید جری کر دیا ہے اور یہ خاموشی فلسطینی خواتین اور بچوں کے قتل عام کے تسلسل کا سبب بنی ہوئی ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بچوں کے عالمی دن کی مناسبت سے X سوشل نیٹ ورک پر لکھا ہے کہ 19 نومبر، بچوں کا عالمی دن، تمام بچوں کے امن اور سکون سے رہنے کے حق کی یاد دہانی کراتا ہے۔ تمام بین الاقوامی قوانین کے باوجود، غزہ اور لبنان کے بچے نہ صرف غزہ کی جنگ میں مر رہے ہیں، بلکہ جو زندہ ہیں، وہ نہ صرف جنگ کی دہشت کا شکار ہیں بلکہ گھر، مناسب پناہ گاہ، ادویات اور صحت کی ابتدائی سہولیات سے محروم ہیں۔ مختلف ذرائع ابلاغ میں بچوں کی کسمپرسی اور غزہ کے ہزاروں بچوں کے حالات زندگی کی عکاسی بہت سی حکومتوں کو ان بچوں پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف متحرک نہیں کرسکی۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی قاتل اس حکومت کو اب بھی مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
ایک فلسطینی صحافی انس الشریف نے غزہ کے مشرق میں واقع الطافہ میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی کچھ تصاویر ریکارڈ کی ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے بمباری شدہ ایک اسکول کی صورتحال بیان کرتے ہوئے انہوں نے X سوشل نیٹ ورک پر لکھا ہے "جب میں قتل عام کے مقام پر پہنچا تو میرا اظہار خیال رک گیا اور میں بولنے کی طاقت اور قوت کھو بیٹھا۔ جسموں کے بکھرے اعضاء اور خون کے جو چھینٹے آج میں نے دیکھے، اس نے مجھے ایسے درد میں مبتلا کر دیا، جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔"انگریزی اخبار "گارڈین" بھی اسی تناظر میں لکھتا ہے: "اسے غزہ کے ڈاکٹروں کی طرف سے رپورٹس موصول ہوئی ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی فوج کے دعووں کے برعکس اس حکومت کے اسنائپرز اور ڈرونز بچوں کو براہ راست نشانہ بنا رہے ہیں۔"
19 اکتوبر کو بچوں کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا گیا ہے جبکہ غزہ اور لبنان کے بچے نہ صرف اس جشن میں شریک نہیں بلکہ ان کی تکالیف کو بھی مغربی میڈیا نے معمول کا امر بنا دیا ہے، جس پر یونیسیف کے حکام کی پریشانی لازمی امر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معصوم فلسطینی بچوں کے قتل اور تشدد نے انسانیت کے ضمیر پر گہرے زخم لگائے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری فلسطینی بچوں کے خلاف گھناؤنے جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔