تحریر: سید رضا عمادی
یورپی یونین نے پیر 18 نومبر کو یوکرین میں ایران کی مداخلت کے بے بنیاد دعووں کو بہانہ بنا کر اسلامی جمہوریہ ایران کی شپنگ کمپنی اور اس کمپنی کے سی ای او پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یورپی یونین کے بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایرانی ساختہ ڈرون، میزائل اور متعلقہ ٹیکنالوجیز اور اجزاء ایران کی شپنگ کمپنی کے ذریعے روس کو سپلائی کئے گئے ہیں۔ یورپ نے ماضی کی طرح ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ ایران، روس نیز مغربی ایشیا اور اس سے باہر کے غیر ریاستی مسلح گروہوں کو ہتھیار منتقل کر رہا ہے۔ آج برطانوی حکومت نے بھی اسی قسم کے الزامات لگا کر اسلامی جمہوریہ ایران کی شپنگ کمپنی کو پابندیوں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ ایرانی جہاز رانی پر پابندی کا یہ سلسلہ ایران کے خلاف مغرب کے معاندانہ اقدامات کا تسلسل ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف یورپی یونین کا معاندانہ اقدام کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور یہ یونین اس سے پہلے بھی ایسے کئی اقدامات کرچکی ہے۔
گذشتہ ماہ یورپی یونین نے ایران کی جانب سے روس کو بیلسٹک میزائل بھیج کر یوکرین کے تنازعے میں ایران کے ملوث ہونے کے بے بنیاد دعووں کو بہانہ بنا کر ایران کی تین فضائی کمپنیوں ایران ایئر، ماہان ایئر اور ساہا ائیر پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ایران کے خلاف یورپی یونین اور برطانیہ کے بے بنیاد دعوے اور نئی پابندیاں کوئی نئی بات نہیں۔ نئی بات یہ ہے کہ یورپی یونین ایسے عالم میں ایران پر ڈرون اور میزائل روس کو منتقل کرنے اور یوکرین کی جنگ میں استعمال کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اس الزام کی تردید کر رہے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی ہے کہ ایران کی طرف سے روس کو کوئی ایرانی بیلسٹک میزائل برآمد نہیں کیا گیا ہے۔ ادھر تہران اور ماسکو کے حکام نے بارہا اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے آغاز سے ہی ایک واضح اور اصولی موقف اپنایا تھا۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے ہمیشہ یہ اعلان کیا ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان اختلافات کو دور کرنے اور فوجی تنازعات کے خاتمے کے لیے سیاسی حل کی حمایت کرتا ہے۔ یوکرین کے بحران کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کا اصولی اور اعلانیہ نقطہ نظر گذشتہ دو سالوں سے بدستور برقرار ہے اور اس نقطہ نظر سے روس کو بیلسٹک میزائل بھیجنے کے دعوے کی تکرار سیاسی اہداف اور مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کی جاتی ہے۔ جو بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے یورپی یونین کی جانب سے ایرانی شپنگ لائنوں پر پابندی کے فیصلے پر ردعمل میں یورپی یونین کے اس اقدام کو کسی بھی قسم کی قانونی، منطقی اور اخلاقی بنیادوں سے عاری قرار دیا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاز رانی کی آزادی سمندروں کے حقوق کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے، جب چند منتخب افراد اسے اپنے لئے استعمال کرتے ہیں تو ان کی کوتاہ نظری کے نتائج خود انہیں بھگتنے پڑتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف یورپی یونین کے معاندانہ اقدامات قانونی اور درست ہونے کے بجائے انسانی حقوق کے حوالے سے اس یونین کے دوہرے معیار اور غلط روش کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یورپی یونین غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی بے مثال نسل کشی اور لبنان کے خلاف اس حکومت کے کھلے جرائم کو نظر انداز کرتی ہے اور یہاں تک کہ ان کے جرائم میں شریک ہے لیکن یوکرین میں انسانی حقوق کی حمایت کا دعویٰ کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف معاندانہ پابندیاں عائد کرنا بھی صیہونی حکومت کی غزہ اور لبنان میں نسل کشی جیسا ایک غیر انسانی اقدام ہے۔
ظالمانہ پابندیاں لگا کر یورپی اتحاد، اسلامی جمہوریہ ایران کو مزاحمت کے بلاک کی حمایت سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح یورپی یونین کی کوشش ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی توجہ صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات سے منحرف ہو جائے اور ایران صیہونی حکومت کے خلاف فیصلہ کن ردعمل دینے سے باز رہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یورپی یونین جو اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، اس طرح کی پابندیاں لگا کر یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ ایران کے بارے میں اس کا اصل نقطہ نظر محاذ آرائی ہے نہ کہ تعمیری۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اس تناظر میں کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بعض یورپی ممالک ایران کے خلاف محاذ آرائی کے عمل کو جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں، جس سے یقیناً کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔