اسلام ٹائمز ۔ تحریک بیداری امت مصطفی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے غزہ و لبنان میں لاشوں پر کھڑی ہو کر فریاد کرنیوالی مظلوم خواتین اور یتیم ہونیوالے کمسن بچے ملت اسلامیہ کو مدد کیلئے پکار رہے ہیں، لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں، من حثیث القوم ملت اسلامیہ کو متحد ہو کر ظلم و بر بریت کی المناک داستانیں رقم کرنیوالے قلم کو توڑنا ہوگا، کربلائے عصر میں جو مظلوموں کی نصرت کیلئے آگے نہیں بڑھے کا اس کا شمار بھی ظالموں میں ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے تحریک بیداری امت مصطفےٰ کے زیر اہتمام جوہر آباد کے مقامی ہوٹل میں "لبیک یا غزہ لبیک یا فلسطین"کے عنوان سے منعقدہ وحدت امت کانفرنس سے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔
کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام، آئمہ مساجد، سیاسی و مذہبی اکابرین سمیت ہزاروں افراد شریک تھے۔ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ مقام حیرت ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، دین کے حوالے سے جذبات رکھنے والے لوگ بھی خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں، سیاسی و مذہبی اکابرین فرقہ واریت کے نام پر ہنگامے تو برپا کر سکتے ہیں لیکن مظلوم فلسطینیوں کا ذکر آتے ہیں ان کے سروں پر پرندے بیٹھ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عرب ممالک حماس و حزب اللہ کے ساتھ امریکہ و اسرائیل سے بھی زیادہ دشمنی کر رہے ہیں، یہی ممالک اس انسانی المیے میں امریکہ و اسرائیل کے سہولت کار ہیں کیونکہ ان کے منصوبے، مفادات اور سلامتی مزاحمتی تحریکوں کے خاتمے اور اسرائیل کی حمایت سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں مذہبی و سیاسی قیادت بھی صہیونیت کی آلہ کار بنی ہوئی ہے جو 13 مہینوں میں ہر چیز پر ہنگامہ برپا کر سکتی ہے، لیکن اس موضوع پر بولنے سے گریز کرتی ہے۔ ایک فرقہ پرست گروہ غزہ سے لاتعلق رہنے کا باقاعدہ سبق پڑھاتا ہے تاکہ غزہ کے بچ جانے کا کریڈٹ کسی دوسرے کو نہ مل سکے۔ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ اسلام دشمن قوتیں ملت اسلامیہ کے اتحاد سے خوفزدہ ہیں اس لئے وہ تفرقے کا ہتھیار استعمال کر مسلمانوں کو متحد نہیں ہونے دیتیں، ہمیں حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے تمام لسانی و فروعی اختلافات بھلا کر خود کو وحدت کی لڑی میں پرونا ہو گا۔
کانفرنس سے، عطاء اللہ چوہدری، مولانا فدالرحمٰن، رانا سلیم الرحمٰن سمیت دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا ، مقررین کا کہنا تھا کہ غزہ اور فلسطین میں مسلم کشی کو رکوانے کیلئے ملت اسلامیہ کا اتحاد عصر حاظر کی اولین ضرورت ہے۔