1
Wednesday 2 Oct 2024 21:38

ایران اسلامی اور اسرائیل صہیونی میں فرق

ایران اسلامی اور اسرائیل صہیونی میں فرق
تحریر: رائے یُوسُف رضا دھنیالہ

ایران نے تل ابیب جیسے آباد شہر کی انسانی بستیوں، لوگوں کے گھروں، پلازوں اور رہائشی علاقوں کو ٹارگٹ کیا ہی نہیں تھا بلکہ صرف اسرائیلی تنصیبات، ہوائی اڈوں اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے اور یہ accuracy اتنی شاندار ثابت ہوئی ہے کہ ایران نے اقوامِ متحدہ میں بڑے فخر کے ساتھ اپنے حملے کو جسٹیفائی کیا ہے کہ ہم نے دفاعی حق استعمال کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور جنگی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میزائل داغے ہیں، جو بھلے خالی جگہوں، میدانوں، صحراؤں میں بھی گرتے رہے ہیں، لیکن کسی رہائشی علاقے، انسانی بستی، عام شہریوں کے گھروں، مکانوں اور دکانوں پہ نہیں گرے ہیں، کیونکہ صہونیت اور اسلام (سلامتی والے مذہب) میں یہی فرق ہے کہ اسرائیل غزہ، یمن، شام اور لبنان میں وحشیانہ انداز میں شہری علاقوں، انسانی بستیوں، پلازوں، رہائشی علاقوں، سکولوں، ہسپتالوں، مہاجر کیمپوں، عالمی اداروں کے دفاتر اور اقوامِ متحدہ کے مراکز تک کو ملیامیٹ کرکے انسان مارتا رہا ہے جبکہ ایران نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

ایران نے کسی سکول، ہسپتال تو کیا، ہر رہائشی عمارت کو بھی جان بوجھ کر بچایا ہے، کیونکہ انسانیت ایران کا ٹارگٹ تھی ہی نہیں، جبکہ یہودی اس کے برعکس نیچر اور ہسٹری رکھتے ہیں۔ لہذا ایران نے شدید صدمے، غم و غصے اور انتقام کے عالم میں بھی انسانیت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تل ابیب کے شہری علاقوں کے بجائے صرف تنصیبات پہ حملہ کیا ہے، تاکہ اسرائیل کی جارحانہ طاقت پہ ضرب لگائی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اسرائیلی شہری اپنی اپنی بالکونیوں اور پناہ گاہوں سے ایرانی میزائلوں کی ویڈیوز اپنے موبائلوں سے بناتے رہے ہیں۔

یقیناً کچھ اسرائیلی شہری ہلاک بھی ہوئے ہوں گے، لیکن ایران نے دانستہ شہری آبادیوں کو نشانہ نہیں بنایا، جس سے ایران نے جنگی اصولوں کی پاسداری اور اپنی اخلاقی بالادستی دنیا پر واضح کر دی ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہدایت کی تھی کہ جنگ کے دوران عورتوں، بچوں، بوڑھوں، املاک، کاروبار، درختوں، فصلوں، ذرائع پیداوار اور غیر مسلح افراد کو ہرگز نشانہ نہ بنایا جائے اور یہی عملاً ایران نے ثابت کر دکھایا ہے، جس پر ایران شاباش اور زبردست ستائش کا مستحق ہے۔ ایران نے وحشت و بربریت اور سلامتی اور اصولوں میں فرق کو دنیا پر واضح کیا ہے. فرض کریں کہ اگر شہری ہلاکتیں ہوئی بھی ہیں اور اسرائیل کی ریاست بوجوہ اپنے جانی نقصان کو ذرائع ابلاغ اور دنیا سے چھُپا بھی رہی ہے تو بھی ایران کی اخلاقی فتح منوانے میں وہ اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ یہ سوچنا فضول اور حماقت ہے کہ 12 منٹ میں ایران سے تل ابیب تک اپنے بے تحاشا میزائل داغ سکنے والا ایران تباہی و بربادی کی سکت یا اہلیت رکھتا ہی نہیں تھا۔

اصل میں ایران نے صیہونیوں کی طرح شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا ہی نہیں تھا، کیونکہ بے تحاشا بندے مارنا اور جینوسائڈ کرنا اس کا ہدف ہی نہیں تھا اور ایران کی یہی سب سے بڑی طاقت ہے، جس کا اعتراف صرف اخلاقی معیار رکھنے والی اقوام اور افراد ہی کر اور سمجھ سکتے ہیں۔ انسان اور اقوام نے جنگوں کو تاریخ کے سامنے بھی جسٹیفائی کرنا ہوتا ہے اور تاریخ چنگیز اور ہلاکو خان، ہٹلر کے بعد اسرائیلی صیہونیوں کو تو وحشی اور قاتل قرار دے سکتی ہے، لیکن ایران کے سینکڑوں ڈرونز اور میزائلوں سے اسرائیلی شہریوں کو نقصان نہ پہنچنے کا اعتراف بھی تاریخ ہی کرے گی کہ جنگوں میں بھی عام شہریوں کو بچا کر دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جا سکتا ہے۔ جنگیں تاریخ کی عدالت میں جوابدہ ہونے کو مدنظر رکھ کر لڑی جانی چاہیئے، لیکن صیہونیوں اور امریکیوں کی نیچر اور تاریخ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایران کے اس جنگی اصول سے اب بھی اگر دنیا سبق سیکھ لے تو انسانیت کی یہ ایک بہت بڑی فتح ہوگی۔

نوٹ: انتہائی دکھ کے عالم میں بھی وحشت و بربریت اختیار کئے بغیر بین الاقوامی اور اسلامی اصولوں کے مطابق جواب دینا ایک ایسا عمل ہے کہ جسے دنیا تک پہنچایا جائے تو تاریخ عالم میں ایرانی قیادت اور پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے طے کردہ جنگی اصولوں کی دنیا انتہائی معترف ہوا کرے گی۔ لہذا اس واقعے کے سافٹ امیج کو دنیا کے سامنے لانا ہماری ذمہ داری ہے۔ عنقریب جنگوں کا ایک لامتناہی عالمی سلسلہ شروع ہونے والا ہے اور بالآخر تیسری عالمی جنگ تک منتج ہونا ہے، جو کہ تباہ کن ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔ ایسے میں ایران کے بھرپور جوابی حملے میں مدِنظر رکھے گئے اصولوں کو اقوامِ عالم کے لئے نظیر بنائے جانے کی ضرورت ہے، لیکن یہ تب ہوگا جب ہم سب ایران کے شہری آبادیوں کو جان بوجھ کے نشانہ نہ بنانے کے عمل کو ابھی سے اجاگر کرکے دنیا کو ایک مثال ذہن نشین کروا دیں تو!
خبر کا کوڈ : 1163992
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش