اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے متعلق عوام کو جلد خوشخبری سنائیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے دوران اویس لغاری نے بتایا کہ پہلے بھی آئی پی پیز پر کمیٹی کو تمام معلومات فراہم کی ہیں، آئی پی پیز سے متعلق عوام کو جلد خوشخبری دیں گے، ٹاسک فورس نے بجلی کے شعبے کا جائزہ مکمل کر لیا ہے۔ اویس لغاری نے کہا کہ حکومت نے اپنے اور دیگر منصوبوں کے ریٹرن آن ایکویٹی، آپریشن اور مینٹیننس کا جائزہ مکمل کر لیا ہے، ہر پلانٹ کی سرمایہ کاری ٹیکنالوجی اور ہر طرح کے اخراجات کو دیکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں پر یکطرفہ کوئی اقدام نہیں کریں گے، آئی پی پیز کو اعتماد میں لے کر تمام کام کیا جا رہا ہے، آئندہ چند ہفتوں میں آئی پی پیز کے ساتھ پیش رفت سامنے آجائے گی۔
انہوں نے اجلاس کو بتایا کہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کی طرف سے کی جانے والی اوور بلنگ صارفین کو واپس کرائی گئی، صارفین کو اوور بلنگ کی مد میں 80 ارب روپے واپس کرائے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ منافع جات کی کمی پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ اجلاس کے دوران بجلی اوور بلنگ کا معاملہ زیر بحث آیا، اوور بلنگ کا معاملہ سینیٹر پلوشہ خان نے سینٹ میں اٹھایا تھا جبکہ آئی پی پیز سے متعلق محمد علی کی 2020کی رپورٹ بھی اجلاس کے ایجنڈا میں شامل تھی۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی محمد علی نے 2020میں آئی پی پیز پر رپورٹ مرتب کی تھی، رپورٹ میں آئی پی پیز کے منافع جات سمیت دیگر امور کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اجلاس میں سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی (سیپکو) پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی ( پیسکو ) اور کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) میں بجلی کی کھپت لوڈشیڈنگ اور بجلی چوری پر بریفنگ کو بھی ایجنڈا میں شامل کیا گیا۔
اجلاس میں کمیٹی کو گنے پھوک سے چلنے والے پاور پلانٹس پر ٹیرف سمیت مکمل بریفنگ دی جائے گی، اجلاس میں چیئرمین نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا) وسیم مختار، منیجنگ ڈائریکٹر سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) سیکرٹری پاور ڈاکٹر فخر عالم عرفان بھی شریک ہیں۔ اجلاس میں سینیٹر پلوشہ خان نے مؤقف اپنایا کہ ان کی والدہ لاہور رہتی ہیں، 900 کی بجائے 9 ہزار یونٹ کا بل بھیجا گیا ،بل ٹھیک کرانے گئے تو ایکسین نے صارف کی توہین کی، ایکسین شجاع نے صارف سے کہا میرے آفس سے نکل جائیں۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ کا نوٹس لیا جائے، صارف 28 مرتبہ بل ٹھیک کرانے لیسکو دفتر گیا۔ اس پر سی او لیکسو نے اجلاس کو بتایا کہ میٹر ریڈنگ غلطی سے اس طرح ہوئی،میں متعلقہ ایکسین کو ساتھ لیکر آیا ہوں،ہم نے اس معاملے پر پہلے بھی معذرت کی ہے۔
پلوشہ خان نے کہا کہ میرے بہنوئی بھی لیسکو کے دفتر گئے، ان کی بے عزتی کی گئی۔ اس پر چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ لیسکو عام آدمی کے ساتھ کیا کرتا ہوگا۔ سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ جہاں کنڈے لگے ہوئے ہیں وہاں کیوں کارروائی نہیں کرتے؟۔ انہوں نے اجلاس میں درخواست کی کہ اس معاملہ کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کو بھیجا جائے۔ واضح رہے 7 ستمبر کو وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا تھا کہ حکومت آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کر رہی ہے تاکہ بجلی کی ’بڑھتی ہوئی قیمتوں‘ کو کم کیا جاسکے۔ وزیر توانائی نے زور دیا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک خاص حد تک کاروباری سمجھوتہ کیے بغیر رعایت فراہم کرنی ہوگی اور یہ کام جتنا جلد ممکن ہو سکے کرنا ہوگا۔