اسلام ٹائمز۔ بھارت کے معروف عالم دین اور جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈوں کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے بلکہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کے نام پر پہلی بار اس میں غیر مسلموں کو بھی لازماً ممبر بنانے کی تجویز لائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹرل وقف کونسل میں پہلے ایک غیر مسلم ممبر رکھا جاسکتا تھا، مجوزہ بل میں یہ تعداد 13 تک ہوسکتی ہے، جس میں دو تو لازماً ہونے ہی چاہیئے۔ اسی طرح وقف بورڈ میں پہلے صرف چیئرمین غیر مسلم ہوسکتا تھا لیکن مجوزہ بل میں یہ تعداد 7 تک ہوسکتی ہے جب کہ بل کے مطابق دو تو لازماً ہوں گے۔ یہ تجویز دستور کی دفعہ 26 سے راست متصادم ہے جو اقلیتوں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی و ثقافتی ادارے نہ صرف قائم کر سکتے ہیں بلکہ اس کو اپنے انداز سے چلا بھی سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ وقف ایکٹ کے تحت ریاستی حکومت وقف بورڈ کی طرف سے تجویز کردہ دو افراد میں سے کسی ایک کو نامزد کرسکتی تھی جو کہ ڈپٹی سکریٹری کے رینک سے نیچے کا نہ ہو لیکن اب وقف بورڈ کے تجویز کردہ کی شرط ہٹا دی گئی ہے اور اب ڈپٹی سکریٹری کی شرط کو ہٹاکر کہا گیا ہے کہ وہ جوائنٹ سکریٹری کی رینک سے کم نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ ترمیمات واضح طور پر سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں کے اختیارات کو کم کرتی ہے اور حکومت کی مداخلت کا راستہ ہموار کررہی ہے۔ مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ مجوزہ ترمیمی بل وقف املاک پر حکومتی قبضہ کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ہے تو اس کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار بھی کلکٹر کے حوالہ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلکٹر کے فیصلہ کے بعد وہ ریونیو ریکارڈ درست کروائے گا اور حکومت وقف بورڈ سے کہے گی کہ وہ اس جائیداد کو اپنے ریکارڈ سے حذف کر دے۔
مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ اسی طرح اگر وقف املاک پر کوئی تنازعہ ہو تو اس کو طے کرنے کا اختیار بھی وقف بورڈ کے ذمہ تھا جو وقف ٹربیونل کے ذریعہ اسے طے کراتا تھا، اب وقف ٹریبونل کا یہ اختیار بھی مجوزہ بل میں کلکٹر کے حوالے کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقف ایکٹ میں کسی بھی تنازعہ کو ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل کے اندر لانا ضروری تھا، اس کے بعد کوئی تنازعہ سنا نہیں جائے گا، اب یہ شرط بھی ہٹادی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجوزہ بل نے کلکٹر اور سرکاری انتظامیہ کو من مانے اختیارات دے دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب کہ آج کلکٹر کے حکم سے مسلمانوں کی زمینوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، تو پھر وقف املاک کے سلسلے میں ان کے رویہ پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔