تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد جنگ کے کھلاڑیوں نے دنیا کو اپنے شکنجہ میں جکڑنے کا ایک نیا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ یہ منصوبہ اقوام متحدہ کی تاسیس کی شکل میں مکمل ہوا۔ پہلے جن جنگی کھلاڑیوں نے دنیا بھر میں لاکھوں یا کروڑوں بے گناہ انسانوں کو قتل کیا تھا، اب ان جنگی کھلاڑیوں نے دنیا پر اپنی حکومت اور بالا دستی کا منصوبہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کی بنیاد رکھ کر شروع کیا۔ اقوام متحدہ نے ان استعماری طاقتوں کی خوشنودی کی خاطر سب سے پہلے ان جنگی کھلاڑیوں کا تسلط قبول کروانے کے لئے ان کو غیر معمولی اہمیت دی، جس کے بعد پوری دنیا میں ان کو سپر پاور کے نام سے پہچان کروا دی گئی۔ اقوام متحدہ نے اگلی مرتبہ ان استعماری طاقتوں کی خوشنودی کے لئے فلسطین کی تقسیم کے لئے سنہ1947ء میں قرار داد نمبر 181 پیش کی اور پھر اس کو منظور کرکے دنیا میں نا انصافی کو ایک عالمی لیبل لگا کر فلسطین کی تقسیم کر دی اور دنیا کے لئے ایک مثال قائم کر دی گئی۔
یہ استعماری طاقتیں جن میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ ہیں، یہ جب چاہیں جیسے چاہیں دنیا کے کسی بھی کونے سے آبادیوں کو ہجرت کروا کر کسی بھی ملک میں آباد کروا سکتے ہیں اور پھر اس استعماریت کو قانونی شکل دینے کے لئے اقوام متحدہ میں قرار دادوں کے ذریعے قبضہ کرسکتے ہیں۔ اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ مقامی آبادی اور وطن کے باسی کیا چاہتے ہیں؟ عوام کی رائے کیا ہے۔؟ ان کے لئے جمہوریت اور عوام کی رائے کی تعریف بھی ہر ملک اور معاملہ کے لئے الگ الگ بنائی گئی ہے۔ بہرحال اس طرح کی باتوں کی ایک بڑی فہرست موجود ہے، لیکن میں مدعا کی بات کرتا ہوں۔ اقوام متحدہ کے اس جال میں بعد میں نہ جانے کتنی ایجنسیاں اور ادارے قائم کئے گئے، جن کی اکثریت صرف اور صرف ان استعماری قوتوں کی آلہ کار ہے۔
ایک ادارہ IAEA بھی بنایا گیا ہے۔ جس کا کام یہ ہے کہ امریکہ سمیت یورپ اور خاص طور پر اسرائیل جیسی ناجائز ریاست جتنا چاہے، جوہری توانائی کا حصول بھی کرے اور چاہے تو جوہری ہتھیار بھی بنائے اور اس سے بڑھ کر ان ہتھیاروں کو چاہے جس طرح جیسے بھی کسی کے خلاف بھی استعمال کرے، کوئی ادارہ ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائے گا۔ کوئی قانون حرکت میں نہیں آئے گا۔ کسی کو جرم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ چاہے تو امریکہ نے جو جاپان کے خلاف ایٹم بم کا استعمال کیا تھا، اس کے باجود بھی آج تک اس ادارے نے کبھی امریکہ کے جوہری اثاثوں پر پابندی کی بات نہیں کی اور نہ ہی ایسی کوئی بات کسی مغربی یا خاص طور پر ناجائز اسرائیل کے لئے کی گئی۔ اس ادارے کا نام انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی رکھا گیا ہے۔
اس ادارے کا کام یہ ضرور ہے کہ جب بھی کوئی تیسری دنیا کا ملک یا کوئی غیر ترقی یافتہ ملک یا ترقی پذیر ملک اپنی ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جوہری توانائی کے حصول کی کوشش کرے تو یہ ادارہ فوری طور پر حرکت میں آئے گا اور پھر اس ملک پر دبائو ڈال کر اس مقصد کو روکنے کے لئے ہر قسم کے اقدامات کو بروئے کار لایا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر یہ ادارہ روکنے میں ناکام ہو جائے تو پھر امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کھلم کھلا ان ممالک کی حکومتوں کو دھمکیاں دیں گے اور ان پر حملہ کرنے کی بات شروع کر دیں گے یا پھر وہاں پر سیاسی و فوجی عنوان سے بغاوتوں کو پروان چڑھانے میں اپنے خزانوں کا منہ کھول دیں گے۔
آج کے دور میں ہمارے سامنے توانائی کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا سامنا کرنے والا ایک ملک ایران سرفہرست ہے اور دوسرا پاکستان ہے۔ ایران کے خلاف تو مغربی ممالک سمیت امریکہ اور اسرائیل کی پوری قوت لگائی جا رہی ہے کہ کسی طرح ایران کا جوہری پروگرام روک دیا جائے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کئی مرتبہ وہاں دورے کئے اور حقائق کو توڑ موڑ کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ان قوتوں کے سارے ہتھکنڈے ناکام ہو جاتے ہیں تو آخر میں ایران پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں اور عوام کے حق کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ یہ امریکی حکومت کی انسان دوستی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ یعنی کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ملک اور آزاد ریاست اپنے ہی ملک کے وسائل کو اپنے ہی ملک کے لئے استعمال نہ کرے۔
یہی سب کچھ امریکی حکومت نے ایک طویل مدت سے وینزویلا کے خلاف بھی کر رکھا ہے۔ حالانکہ وینزویلا خود جنوبی امریکا میں واقع ہے، لیکن امریکی پابندیوں کے باعث دنیا میں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ ہونے کے باوجود اپنے ہی شہریوں کے لئے استعمال نہیں کرسکتا۔ یہ سب کچھ امریکہ کی نام نہاد انسان دوست پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح یہ سب کچھ اس مرکزی عالمی نظام جسے اقوام متحدہ کہتے ہیں، اس کے دوہرے معیار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جوری توانائی کا حصول ایران کے لئے جرم ہے، لیکن یہی کام امریکہ سمیت یورپی ممالک کریں تو ٹھیک ہے۔ یہی کام اگر غاصب صیہونی ناجائز ریاست اسرائیل انجام دے تو کسی عالمی ادارے اور تنظیم سمیت استعماری طاقتوں کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ایک سال میں پچاس ہزار انسان قتل کر دیئے جائیں تو بھی یہ اقوام متحدہ بس اپنے آپ کو بے بس بنا کر تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔
اسی طرح آج کل پاکستان کے میزائل پروگرام کے خلاف امریکی حکومت کی جانب سے پابندیوں کا اعلان سامنے آچکا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے جوہری پروگرام اور جوہری اثاثوں پر تنقید کی ہے اور اس کا فائدہ ہمیشہ پاکستان کے دشمن ملک ہندوستان کو دیا ہے کہ جس کے ساتھ ماضی میں دو بڑی جنگیں اور کئی ایک چھوٹی موٹی لڑائیاں بھی ہوچکی ہیں۔ یہی امریکہ ہندوستان کے جوہری اثاثوں کے بارے میں تشویش کا اظہار نہیں کرتا، لیکن پاکستان کے بارے میں ان کا دوہرا معیار موجود ہے۔ جس طرح ایران کو توانائی کے حصول سے روکنا چاہتے ہیں، اسی طرح پاکستان کو دفاعی ضروریات سمیت دیگر ضروریات کے لئے میزائل پروگرام سمیت جوہری پروگرام کو روکنا چاہتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو یہ امریکہ کی خود مختار ممالک یعنی پاکستان اور ایران میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے، جبکہ اسرائیل جو ایک طرف ایران کا دشمن ہے اور دوسری طرف پاکستان کا سب سے بڑا اور نظریاتی دشمن بھی ہے، اس کے لئے کوئی قوانین ہیں ہی نہیں۔ اسرائیل جتنے چاہے جوہری ہتھیار اور میزائل بنائے بھی اور ان کا استعمال معصوم انسانوں کے خلاف بھی کرے، لیکن اگر پاکستان اور ایران نے اپنے دفاع کے لئے اس طرح کے ہتھیار بنائے اور جوہری پروگرام چلایا تو پھر ان کے خلاف پابندیاں لگائی جائیں گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جوہری توانائی کے حصول کو مغربی دنیا نے اپنے علاوہ باقی سب کے لئے جرم قرار دے رکھا ہے، جو کہ ان کے کھوکھلے پن اور دوغلے پن کی واضح علامت ہے۔
ایران اپنے جوہری توانائی کے پروگرام پر گامزن ہے اور آئے روز اس شعبہ میں ترقی کر رہا ہے اور اسی طرح پاکستان بھی ریاست کی خود مختاری اور سالمیت اور دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے اور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہے۔ لیکن امریکہ سمیت اتحادیوں نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ ایران نے تو مغربی دنیا کی پابندیوں کو عملی طور پر جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں ڈال کر پیشرفت جاری رکھی ہے۔ یہی کام پاکستان کو کرنا ہے اور عنقریب ایسا ہی ہونے والا ہے، کیونکہ پاکستان کے عوام کبھی بھی پاکستان کے میزائل پروگرام یا جوہری پروگرام پر امریکہ سمیت کسی کی مداخلت کو قبول نہیں کریں گے۔