0
Saturday 11 Jan 2025 21:30

گریٹر اسرائیل، ورژن ون

گریٹر اسرائیل، ورژن ون
تحریر: سید اسد عباس

اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے گریٹر اسرائیل کا ایک نقشہ جاری کیا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ فلسطین، اْردن، شام اور لبنان کے کچھ حصے اسرائیل کا حصہ ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اْردن اور فلسطین نے اسرائیل کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اِس نقشے کو مسترد کر دیا، سعودی عرب کا کہنا تھا کہ اِس طرح کے انتہاء پسندانہ اقدامات اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خود مختاری پر کھلم کھلا حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی خلاف ورزیاں روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

فلسطین اور اُردن کے حکام نے بھی اسرائیلی نقشے کی مذمت کی، فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نے کہا کہ رواں ہفتے اسرائیلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی طرف سے شیئر کیا گیا نقشہ تمام بین الاقوامی قراردادوں اور قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، نئی امریکی انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ اُن تمام اسرائیلی پالیسیوں کو روکے، جو مشرق وسطیٰ میں سلامتی اور امن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اردن کی وزارتِ خارجہ نے ”گریٹر اسرائیل“ کے نقشے کو اشتعال انگیز اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے کہ یہ اسرائیل کا تاریخی نقشہ ہے، نسل پرستی پر مبنی اسرائیلی اقدامات اور تبصرے اُردن کی خود مختاری کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فلسطینی عوام کے جائز حقوق کو تبدیل کرسکتے ہیں۔

قطری وزارتِ خارجہ نے بھی اپنے بیان میں اسرائیلی نقشے کی اشاعت کے بارے میں کہا کہ غزہ کی پٹی پر جاری وحشیانہ جنگ کے دوران مبینہ نقشے کی اشاعت خطے میں اَمن کے امکانات کو متاثر کرے گی۔ قطری وزارتِ خارجہ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال کر اسے عالمی قانونی قراردادوں کی تعمیل اور عرب ممالک میں توسیع پسندانہ عزائم سے باز رکھنے کی ذمہ داری کو پورا کرے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کے تمام اشتعال انگیز اقدامات اور بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی کے تمام اقدامات کو واضح طور پر مسترد کرنا چاہیئے۔

واضح رہے کہ اِس سے قبل مارچ 2023ء میں اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزل سموٹریچ کو پیرس میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران “گریٹر اسرائیل” کے نقشے کے ساتھ کھڑے ہوئے دیکھا گیا تھا، اِس نقشے میں اُردن کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا تھا، لیکن اس نئے نقشے میں اب کئی دوسرے ممالک کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ ایک معروف پاکستانی روزنامے کے لکھاری جناب عبد اللہ طارق سہیل نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ "گریٹر اسرائیل کے نقشے سے جو تشویش عرب ممالک کو ہوئی ہے، اسے لطیفوں کی کتاب میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ طارق سہیل صاحب کہتے ہیں کہ عرب ممالک کی تشویش کا اظہار غیر متوقع تھا، کیونکہ ان کے بارے میں تو خیال تھا کہ وہ از خود آگے بڑھ کر ان ممالک کو اسرائیل کی گود میں ڈال دیں گے۔

صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈر ہرزل نے 1896ء اور 1902ء میں دو کتابیں، دی جیوش سٹیٹ اور دی اولڈ اینڈ نیو لینڈ کے نام سے لکھیں، انھوں نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ  ان کتابوں میں دیا۔ یہ تصور اسرائیل کے جھنڈے اور قومی ترانے میں دریا سے دریا تک کے استعارے سے معروف ہے۔ اسرائیلی جھنڈے میں دو نیلی پٹیاں انہی دو دریاؤں یعنی نیل اور فرات کی نشاندہی کرتی ہیں اور انہی دو دریاؤں کے مابین صہیونی ریاست کا قیام اسرائیلیوں کا خواب ہے۔ گذشتہ برس جنوری میں ایک اسرائیلی مصنف  ایوی لپکن نے گریٹر اسرائیل کا پورا نقشہ لہراتے ہوئے کہا کہ ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب اور پھر عراق تک وسیع ہوں گی۔ اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا پر جاری کردہ گریٹر اسرائیل کے نقشے کو اس سلسلہ کی پہلی کڑی قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسرائیلی سوشل میڈیا کی یہ اشاعت یا خواب اگرچہ ایک خواب ہی ہے، تاہم تمام اسلامی ممالک کے لیے ایک لمحہ فکریہ ضرور ہے۔ تشویش کے اظہار، مطالبات سے اگر اسرائیل کو روکا جا سکتا ہوتا تو بہت عرصہ پہلے فلسطین کا مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔ مسلم قیادت اور ممالک کے پاس مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ آج یہ بات سچ ثابت ہوچکی ہے کہ فلسطین عالم اسلام کے تحفظ کی جنگ لڑ رہا تھا، جیسے ہی اسرائیل کو غزہ میں مقاومت کی کمزوری محسوس ہوئی تو اس نے اپنی نظریں دیگر اسلامی ریاستوں پر جما لیں۔ شام میں وہ اپنی فوجیں اتار چکا ہے۔ لبنان کے ساتھ اگرچہ جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے، تاہم اس کی افواج لبنان میں موجود ہیں۔

اس بدمست ریاست کے پیچھے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہاتھ ہے۔ خبر ہے کہ امریکہ اسرائیل کو آٹھ ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرے گا۔ اِس سے قبل گذشتہ برس اگست میں بھی امریکہ نے اسرائیل کے لیے 20 ارب ڈالر کے پیکیج کی منظوری دی تھی، جس میں جیٹ طیارے، فوجی گاڑیاں، بم اور میزائل شامل تھے، جبکہ بعد ازاں نومبر میں بائیڈن انتظامیہ نے 68 کروڑ ڈالر کا بم اور دیگر جنگی ساز و سامان پر مشتمل ایک اور پیکیج اسرائیل کے لیے منظور کیا تھا۔ مسلم امہ نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو جلد اسرائیل نامی غنڈہ ان پر مسلط ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1183800
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش