تحریر: علی کاظم زادہ
امریکہ اور برطانیہ ایک ایسے وقت میں یمن پر اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں کہ جب صنعا کی عوامی حکومت پر ہونے والے ان جرائم پر عالمی برادری نے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اسرائیلی فوج کے جرائم کے حوالے سے بعض عرب ممالک کی خاموشی کا خمیازہ غزہ کے ساتھ صنعا بھی بھگت رہا ہے۔ یمن کی انصار اللہ تحریک سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ امریکی اور برطانوی جنگی طیاروں نے شمالی یمن میں واقع "عمران" صوبے پر تین اور ملک کے دارالحکومت صنعا کے جنوب میں دو حملے کیے ہیں۔ یہ میزائیل بحیرہ احمر میں موجود امریکی جنگی جہازوں سے داغے گئے ہیں۔
دوسری طرف، CENTCOM نے یمن میں اہم تنصیبات پر فضائی حملوں کی اطلاع دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ تنصیبات یمن کے انصاراللہ سے تعلق رکھتی ہیں اور انہیں اسلحہ ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے. یمن کے مختلف علاقے بالخصوص الحدیدہ اور صنعا حالیہ مہینوں میں امریکہ اور برطانیہ کے جارحانہ حملوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، ان حملوں کا مقصد یمنی حکومت کی طرف سے صیہونی بحری ناکہ بندی کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے جنوری 2023ء میں یمن کی عوام جماعت انصاراللہ کے ٹھکانوں پر حملے شروع کیے تھے، یہ حملے غزہ پٹی میں فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں کئے گئے حملوں کا جواب ہیں۔ انصاراللہ نے کئی صیہونی یا صیہونی حمایت کے لئے جانے والے بحری جہازوں کو بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں نشانہ بنایا ہے۔
یمنی مجاہدین نے ایک سال سے زائد عرصے سے غزہ پٹی میں فلسطینی عوام کی حمایت میں بحیرہ احمر، خلیج عدن اور بحیرہ عرب میں اسرائیلی حکومت کی بحری ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ یمنی فوج نے عہد کیا ہے کہ جب تک اسرائیلی حکومت غزہ پر اپنے حملے بند نہیں کر دیتی، بحیرہ احمر میں مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے والے تمام اسرائیلی جہازوں پر حملے جاری رکھیں گے۔ انصاراللہ یمن نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ صرف اسرائیلی تجارتی بحری جہازوں یا مقبوضہ علاقوں میں بندرگاہوں پر جانے والے جہازوں کو نشانہ بنائے گا اور اس کا بنیادی مقصد صیہونیوں اور ان کے حامیوں پر نسل کشی کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے، کیونکہ یہ غزہ کے لوگوں کے خلاف ایک وسیع پیمانے پر قتل عام ہے۔
یمن کی انصاراللہ نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر امریکیوں اور انگریزوں کی جارحیت کا مناسب جواب دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مغربی مبصرین اور تجزیہ کار مختلف دلائل کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھا رہے ہیں کہ لندن کی کارروائی کا اصولی موقف درست نہیں ہے۔ یمن کے خلاف واشنگٹن کی کاروائیاں ان کے لئے بہت مہنگی ثابت ہوں گی اور یہ ان دونوں ممالک یعنی امریکہ اور برطانیہ کے قومی مفادات کے خلاف ہے، کیونکہ وہ اس وقت تک کوئی ٹھوس فائدہ حاصل نہیں کرسکیں ہیں۔ ان کا یہ اقدام انھیں غزہ میں صہیونی جرائم میں برابر کا شریک ٹھرائے گا۔
فارن پالیسی میگزین نے اپنی ایک رپورٹ میں یمن پر امریکہ اور برطانیہ کی جنگ کے تناظر میں لکھا ہے کہ سعودی عرب کو آٹھ سال بعد یہ احساس ہوا کہ وہ انصاراللہ کو شکست نہیں دے سکتا۔ یہ بات امریکہ اور برطانیہ کو ابھی تک سمجھ کیوں نہیں آئی۔ ٹائم میگزین کے مطابق، یمن پر امریکی اور برطانوی حملے کا جواب جیران کن ہوسکتا ہے، کیونکہ حوثیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے ملک پر کسی بھی حملے کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آئے ہیں۔