رپورٹ: سید عدیل زیدی
ہر سال کی طرح امسال بھی خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران پشاور اور ہم لوگ کے اشتراک سے ’’پیرو ادیان کی سماجی ذمہ داری اور آج کے عالمی چیلنجز‘‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں مختلف مذاہب اور اسلامی مکاتب فکر کی مذہبی شخصیات نے شرکت کی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے بھی خطابات کئے۔ کانفرنس میں تمام ادیان کو باہمی مسالمت آمیز زندگی گزارنے اور مشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے امن و سلامتی اور دنیا میں عدل و انصاف کے قیام پر زور دیا گیا۔ کانفرنس کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے ہوا، جس کے بعد مسیحی مذہبی دعائیہ کلمات پڑھے۔ کانفرنس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل جنرل پشاور علی بنفشہ خواہ، خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران پشاور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسین چاقمی، ہم لوگ کے چئیرمین آگسٹن جیکب نے خطاب کیا۔
اس کے علاوہ سابقہ وزیر برائے اقلیتی امور وزیرزادہ، جامعہ شہید عارف الحسینی علامہ عابد حسین شاکری، اقلیتی رہنماء راوی کمار، بشپ آرنیسٹ جیکب، زرعی یونیورسٹی پشاور کے پروفیسر ڈاکٹر محمد نذیر، چائینہ ونڈو کی ڈائریکٹر ناز پروین، اہلحدیث رہنماء محمد مقصود احمد سلفی، دیوبند عالم دین علامہ محمد شعیب اور بڑی تعداد میں مسیحی اور ہندو کمیونٹی کے علاوہ دیگر معززین نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ ادیان عالم ارتقا انسانی کی اہم کڑی ہیں، انسانی سماج کی ترقی کے لیے ایسے فکر و نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے جو جامع اور ہمہ گیر ہو، آج کی دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ادیان کے پیروکار اپنے مذہب پر صحیح معنوں میں عمل کریں۔ بین الامذاہب ہم آہنگی کے ذریعے ہی انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے اور دنیا میں آنے والی آفات اور درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاہب اخلاقی رہنمائی کی طاقتور قوتوں کے طور پر ایسے اصول فراہم کرتے ہیں جو افراد اور معاشروں کو معاصر مسائل کے سامنے ذمہ دارانہ طرز عمل کرنے کہ ترغیب دے سکتے ہیں۔ خانہ فرہنگ ایران پشاور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسین چاقمی نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے ادیان الہی کی تعلیمات کے مطابق، حق کا ادراک، آزادی، امن و سلامتی اور دنیا میں عدل و انصاف کا قیام، مشکلات، مسائل اور منفی پہلوں جیسے محرومی، قحط، بھوک، انتہاء پسندی اور قدرتی آفات سے مناسب طریقے سے نمٹنے کی اہمیت پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی معاشرے میں مسالمت آمیز باہمی زندگی، سلامتی اور امن کا حصول ہے اور "یقینی صلح" تب ہی ممکن ہے جب نہ کوئی مظلوم ہو اور نہ ہی ظالم۔ آج کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے گلوبل ویلج میں عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں مذاہب کا کردار بہت زیادہ توجہ طلب ہوچکا ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ مذاہب میں سچائی ایمانداری اور عدالت و انصاف اور جبر کی مخالفت جیسی اعلی اقدار پر زور دیا گیا ہے، ان پر عمل کرنے سے انسان اپنے وحشی اور شیطانی مزاج کو کنٹرول کرتا ہے۔ آج نیکی اور بدی، فرشتہ اور شیطان کے درمیان جنگ عالمی شکل اختیار کر چکی ہے۔ لیکن بین الاقوامی برادری کے ارکان کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم شعوری طور پر جبر کا مقابلہ کریں اور عالمی چیلنجوں کے خلاف جنگ میں بامعنی انصاف کے قیام کے ساتھ ساتھ جبر اور منظم بدعنوانی سے پاک دنیا کے قیام کے لئے اقدامات کریں۔ کانفرنس کے مقررین نے امن کے لئے تمام مذاہب کے ایکا پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تمام مذاہب کے پیروکار باہم ، اتحاد، برادری اور دوستی کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا میں موجود تمام ادیان صلح اور امن کا درس اور تشدد وخونریزی کی مخالفت کرتے ہیں، اور دہشت گردی جیسے عوامل کا کسی بھی دین سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کسی بھی دین کی مقدس کتاب اس کی تعلیم دیتی ہے۔