تحریر: سید عبداللہ متولیان
شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی جانب سے صدر بشار اسد کی حکومت گرا کر برسراقتدار آ جانے کے بعد کچھ حلقوں کی طرف سے یہ بات کی جا رہی تھی کہ شام میں قربانیاں دینے والے شہدائے مدافع حرم کا خون ضائع ہو گیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر اس غلط فہمی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: "بعض غلط تجزیے اور درست فہم نہ ہونے اور مسائل کو صحیح انداز میں نہ سمجھنے کے باعث یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور شاید اس بات کو پھیلاتے بھی ہیں کہ خطے میں تازہ ترین حالات کے باعث ان شہداء کا خون ضائع ہو گیا ہے جو حرم کے دفاع میں بہا۔ یہ بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اگر یہ (شہدائے مدافع حرم) نہ جاتے اور جہاد نہ کرتے اور شہید قاسم سلیمانی پہاڑوں اور بیابانوں میں جدوجہد نہ کرتے تو آج کوئی بھی حرم باقی نہ بچتا۔ نہ زینبیہ ہوتا نہ کربلا اور نہ ہی نجف۔"
اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ دینی تعلیمات کی روشنی میں شہید کا خون نہ صرف ضائع نہیں ہوتا اور شہداء زندہ ہیں اور خدا کے حضور روحانی رزق حاصل کر رہے ہیں بلکہ دنیا میں بھی شہید کے خون کی برکت اور اثرات ہمیشگی ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ اپنے بعد والی نسلوں کو ہدایت دے کر ان میں بیداری پیدا کرتے رہتے ہیں۔ تحریک عاشورا اور شہدائے کربلا، خاص طور پر سید الشہداء امام حسین علیہ السلام، شہید کے خون کے موثر اور ہمیشگی ہونے کی اعلی مثال ہیں۔
2)۔ آیات قرآن کریم کی روشنی میں شہداء کے خون کا اثر کسی خاص وقت یا جگہ تک محدود نہیں ہوتا اور بندگی کا طریقہ یہ ہے شرعی ذمہ داری انجام دی جاتی ہے جبکہ نتیجہ پہلی ترجیح نہیں ہوتا۔ سورہ توبہ کی آیت 52 کی روشنی میں مجاہد فی سبیل اللہ اپنے جہاد میں دو بھلائیوں میں سے ایک پا لیتا ہے؛ یا بظاہر فتح حاصل کر لیتا ہے یا شہید ہو جاتا ہے۔
3)۔ سورہ محمد کی آیت 4 میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ شہداء کے اعمال ہر گز ختم نہیں ہوتے۔ مزید برآں، قرآنی تعلیمات کی روشنی میں شہید "زندہ" ہے اور خدا کے حضور روحانی رزق پاتا ہے، مغفرت الہی کے مقام پر فائز ہوتا ہے اور عظیم اجر حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں شہادت کو شہید کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ شہید صدیقین اور صالحین کے ہمراہ محشور ہو گا۔
4)۔ امام زین العابدین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے شہید کی سات خصوصیات بیان فرماتے ہیں؛ تمام گناہان کی بخشش، شہید کا سر حور کے دامن میں، بہشتی لباس پہنایا جانا، بہشتی خوشبو سے معطر ہونا، بہشت میں اپنا مقام دیکھنا، بہشت میں مرضی کا مقام چن سکنا اور وجہ اللہ پر نگاہ کرنا۔ (وسائل الشیعہ، جلد 15، صفحہ 16)۔
5)۔ 2010ء کے عشرے میں شہید قاسم سلیمانی کی جانب سے مدافع حرم مجاہدین کے ہمراہ شام اور عراق میں جہادی سرگرمیوں کا پہلا نتیجہ مغربی صیہونی منصوبے "گریٹر مڈل ایسٹ" کی نابودی کی صورت میں ظاہر ہوا جس کا مقصد ایران سمیت خطے کے تمام بڑے ممالک کو چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کرنا تھا اور مغربی طاقتوں نے اس منصوبے پر 8 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ مزید برآں، شہدائے مدافع حرم کی جدوجہد کا ایک اور نتیجہ شام پر تکفیری دہشت گرد عناصر کا غلبہ 13 سال موخر ہو جانا تھا۔ یہ تیرہ برس ایران کے لیے اپنی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے کا سنہری موقع ثابت ہوا۔ اس وقت ایران خطے کی سب سے بڑی طاقت ہے اور وہ اکیلا ہی مغربی عبری سازشوں کا بھرپور مقابلہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح ان تیرہ برس میں اسلامی مزاحمتی محاذ کی طاقت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
6)۔ شہید قاسم سلیمانی کی سرپرستی میں شہدائے مدافع حرم کی جدوجہد کا سب سے بڑا ثمرہ، عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی کمر ٹوٹ جانا ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ شام اور عراق میں حکومت بنانے کے درپے تھا اور شہدائے مدافع حرم نے اس کی یہ آرزو مٹی میں ملادی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تکفیری دہشت گرد عناصر کی سوچ اور عقائد، مقدس مقامات کے لیے بہت بڑا خطرہ تھے۔
7)۔ شہدائے مدافع حرم نے اہلبیت اطہار علیہم السلام کے مزارات مقدس کی حفاظت کا نعرہ لگایا اور شام اور عراق میں مقدس مقامات کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ صدر بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے بعد جو حالیہ دہشت گرد گروہ شام میں برسراقتدار آئے ہیں انہوں نے مقدس مقامات کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
حق اور باطل کے معرکے میں شہید کا خون، مقدس اہداف کے حصول اور حق کے محاذ کی فتح کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ دفاع مقدس میں بھی شہداء کے خون نے جنگ میں فتح کو یقینی بنایا تھا اور عراق میں بھی شہداء کا خون تھا جس نے کربلا کا راستہ کھولا اور اسلامی مزاحمت کا بیج بویا۔ شہداء کے خون نے ہی آمر بعث پارٹی کی جڑیں اکھاڑ پھینکیں اور اربعین کی راہ ہموار کر دی۔ اسی طرح لبنان میں بھی حزب اللہ کے شجرہ طیبہ کا درخت، 18 برس کے غاصبانہ تسلط اور صیہونی ظلم و ستم کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بڑا ہوا۔ امام خمینی رح نے بھی دفاع مقدس کے بارے میں غلط تجزیات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جنگ میں ایک لمحے کے لیے بھی پشیمانی کا شکار نہیں ہوئے اور جو کچھ پایا ہے وہ شہداء کے خون کی برکت سے ہے۔