0
Thursday 9 Jan 2025 05:53

اگلا نشانہ حشد الشعبی ہے

اگلا نشانہ حشد الشعبی ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عراق میں داعش ایک طوفان کی مانند اٹھی، ایک کے بعد ایک شہر برباد کرتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔ موصل جیسا بڑا شہر ان کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور یہ اس پر قابض ہوگئے۔ اس کے بعد جو کچھ ان لوگوں نے موصل اور اہل موصل کے ساتھ کیا، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ عراق کی فوج موجود تھی اور اس کی پولیس بھی تھی۔ جب موقع آیا تو فوج اور پولیس دونوں منظر عام سے غائب ہوگئیں۔ ہزاروں شیعہ کیڈٹس کو دریا کنارے ذبح کر دیا گیا تھا۔ کچھ عرب ممالک اور امریکہ کا منصوبہ تھا کہ کسی بھی طرح سے عراق کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا جائے اور اس کے تین حصے ہو جائیں۔ شام سے متصل سرحد کو داعش کی نئی خلافت کو دے دیا جائے۔ یہ نئی خلافت اور کچھ کرے نہ کرے مزاحمتی محور کا راستہ ضرور کاٹے گی۔ یوں آج شام میں جو کام جولانی کر رہا ہے، وہی کام اس وقت داعش سے لینا مقصود تھا۔ دوسرا خطہ مسلسل عدم استحکام سے دوچار رہے گا، اس لیے امریکہ عراق میں موجود رہے گا۔ یوں خطے پر اصل حکمرانی امریکہ کی رہے گی اور یہاں سے براہ راست جمہوری اسلامی پر بھی دباو رکھا جائے گا۔

داعش بغداد کی طرف بڑھنے لگی اور یہ خطرہ پیدا ہوا کہ یہ ناصرف بغداد پر قبضہ کریں گے بلکہ یہ حرم ہائے مقدسہ کو بھی نقصان پہنچائیں گے اور مسلکی اختلاف کی بنیاد پر شیعہ نسل کشی کریں گے۔ ان حالات میں عراق کی مرجعیت اعلیٰ  یعنی آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی نے ہر لڑنے والے عراقی پر جہاد فرض کا فتویٰ دیا۔ عصر حاضر کی تاریخ میں یہ فتویٰ کی طاقت کا سب سے موثر اظہار سمجھا جاتا ہے۔ اس فتویٰ نے پورے جنوبی عراق میں ایک انقلابی تحریک پیدا ہوئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں ایک عوامی مزاحمت نے جنم لیا، جس نے داعش کے بڑھتے قدموں کو طاقت سے روک دیا۔ جب مغربی ممالک اور خطے کے اربوں ڈالر انویسٹمنٹ کرنے والے ممالک یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ اب بغداد ہمارے کنٹرول میں ہوگا کہ داعش کی پسپائی کا سفر شروع ہوگیا اور اس عوامی مزاحمت نے جسے بعد میں حشد الشعبی کا نام دیا گیا، کمال کر دیا۔

اہل عراق یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی آزادی اور استقلال حشد الشعبی کی مرہون منت ہے۔ حشد الشعبی ریاست عراق کی علامت ہے۔ جب عراق کی تمام ریاستی  افواج اہل عراق کو چھوڑ کر جا چکی تھیں تو حشد الشعبی نے ان کے مال و جان کا تحفظ کیا اور عراق کی بندر بانٹ کے بین الاقوامی منصوبے کو بھی درہم برہم کر دیا۔ آج حشد الشعبی عراق کی تعمیر اور استحکام کی علامت بن چکی ہے۔ اہل عراق کی حشد الشعبی سے محبت کے ہم سفر زیارات میں شاہد ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل سے خبریں آرہی ہیں کہ حشدالشعبی کے خلاف دشمن نئی چال چل رہے ہیں۔ امریکی اور مغربی یہ چاہتے ہیں کہ حشد الشعبی کی شناخت کو ختم کر دیا جائے اور عراق کی فوج ہی سارے معاملات کو سنبھالے۔ بظاہر یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ عراق کی فوج ہی کو سارے سکیورٹی معاملات سنبھالنے چاہیں۔

حشد الشعبی کیا ہے؟ جس طرح فوج اہل عراق کی ہے، اسی طرح حشد الشعبی بھی عراق کی ہے۔ جب عراقیوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ کہا جاتا ہے کہ عراق کے اقوام متحدہ میں نمائندے نے ایک ہفتے میں دو بار آغا سیستانی سے ملاقات کی ہے، جس میں بنیادی مدعا یہی تھا کہ حشد الشعبی کے حوالے سے دیا گیا فتویٰ واپس لیا جائے اور ان کی الگ شناخت اور فیصلہ سازی کے نظام کو ختم کر دیا جائے۔ حشد الشعبی عراقی نظام کا حصہ ہے، آرمی چیف اور وزیراعظم کے احکامات کے مطابق چلتی ہے۔ 26 نومبر 2016ء کو عراقی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں "تنظیم حشد شعبی" کا قانون پاس ہونے کے بعد عراق کی ایک عسکری وینگ بن گئی اور چیف آف آرمی سٹاف کے زیر نظر آگئی۔ ایک پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ کوئی شیعہ تنظیم ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ حشد الشعبی میں رضاکاروں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار ہے، جن میں سے نوے ہزار شیعہ عرب، تیس ہزار سنی عرب، سات ہزار ترکمن اور تین ہزار افراد مسیحی ہیں۔

امریکی اور مغربی حکام کی مشکل یہ ہے کہ روایتی فوجی ڈھانچہ ان کا تشکیل دیا ہوا ہے۔ اس میں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کیا کرسکتے، حتیٰ کیا سوچ بھی سکتے ہیں۔ یہ سب ان کے بنائے دائرے کے اندر ہوتا ہے۔ کوئی بھی روایتی آرمی ان کے  ساتھ نہیں لڑتی۔ انہوں نے ان کے دلوں میں تربیتی اکیڈمیوں سے ہی مغربی برتری کا تصور قائم کر دیا ہے، جو ان کے ہر فیصلے سے جھلکتا ہے۔ غیر روایتی تنظیمیں ایسی نہیں ہوتیں۔ ان کی فیصلہ سازی کا طریقہ کار اور ان کی تربیت سب ہی مغربی اثرات کی بجائے اپنے نظریئے اور روایت کے مطابق ہوتی ہے۔ دوسری اور اہم وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب کو نظریاتی فورسز سے مسائل ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی صورت میں ایسے نظریئے کی حامل فوج کو قبول نہیں کرتے جو  اپنا نظریہ رکھتی ہو۔

نظریئے والی فورسز ہر صورت میں مزاحمت کریں گی، وہ مفاد کی بجائے نظریہ کی جنگ کریں گی۔ آج یمن کے حوثی، لبنان کی حزب اللہ اور عراق کی حشد الشعبی غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ انہی ممالک کی سرکاری افواج ایسا نہیں کر رہیں۔ شام کے بعد اب اگلا وار حشد الشعبی پر لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ خطے میں سفارتی حل چل بھی جاری ہے۔ عراقی وزیراعظم تہران میں ہیں اور رہبر معظم سے ملاقات کی ہے۔ رہبر معظم نے عراق کے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے آپ نے بھی کہا کہ حشد الشعبی عراق کی طاقت کا اٹوٹ حصہ ہے، لہذا اس تنظیم کی تقویت اور اس کی حفاظت کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت اہمیت کا حامل پیغام ہے، جو عراق کی یکجہتی اور استحکام کا ضامن ہے۔
خبر کا کوڈ : 1183220
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش