اسلام ٹائمز۔ جسٹس گوائی نے اپنے تبصرے میں کہا کہ ریاست کے پاس ان لوگوں کے لئے سارا پیسہ ہے جو کوئی کام نہیں کرتے، جب ہم مالی مجبوریوں کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس پر بھی نظر ڈالنی چاہیئے، جیسے ہی الیکشن آتے ہیں، آپ لاڈلی بہنا اور دوسری نئی خواتین کو یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب ججوں کو تنخواہ دینے کی بات آتی ہے تو حکومتیں مالی مجبوریوں کی بات کرتی ہیں۔ یہ تبصرہ سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے کیا، جو ججوں کی تنخواہ کے معاملے کی سماعت کر رہی تھی۔ بنچ نے کہا کہ ریاست کے پاس مفت بانٹنے کے لئے پیسے ہیں لیکن ججوں کی تنخواہ اور پنشن ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے دہلی انتخابات میں ہونے والے اعلانات کا بھی حوالہ دیا جہاں کوئی پارٹی 2100 روپے دینے کی بات کر رہی ہے تو کوئی 2500 روپے دینے کی بات کر رہی ہے۔
آل انڈیا ججز ایسوسی ایشن نے 2015ء میں ججوں کی تنخواہ اور ریٹائرمنٹ کے فوائد کو لے کر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ججوں کو تنخواہیں وقت پر نہیں مل رہیں اور انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد کی مراعات سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ اس کیس کی سماعت جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح نے کی۔سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ جب ججوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کی بات آتی ہے تو ریاست مالی بحران کی بات کرتی ہے لیکن جب انتخابات آتے ہیں تو لاڈلی بہنا اور اس طرح کی دیگر اسکیموں کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
بنچ نے کہا کہ اگر ہم دہلی کو دیکھیں تو یہاں بھی پارٹیاں کہہ رہی ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آئیں تو 2100، 2500 روپے دیے جائیں گے۔ جسٹس گوائی نے اپنے تبصرے میں کہا کہ ریاست کے پاس ان لوگوں کے لئے سارا پیسہ ہے جو کوئی کام نہیں کرتے، جب ہم مالی مجبوریوں کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس پر بھی نظر ڈالنی چاہیئے، جیسے ہی الیکشن آتے ہیں، آپ لاڈلی بہنا اور دوسری نئی خواتین کویاد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں جن میں آپ کو ایک خاص رقم ادا کرنی پڑتی ہے، اب دہلی میں کسی پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آئیں گے تو وہ 2500 روپے دیں گے۔