تحریر: مرتضیٰ مکی
پچھلے سالوں کی طرح 2024ء میں بھی یورپ پہنچنے کے متمنی سیکڑوں مہاجرین غیر محفوظ کشتیوں پر سفر کرنے کی وجہ سے بحیرہ روم کے سمندر کے بپھرے ہوئے پانیوں میں ڈوب گئے۔ غیر سرکاری تنظیم ایس او ایس ہیومینٹی نے اس سال بحیرہ روم میں 1,600 پناہ گزینوں کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔ "دی اسٹینڈرڈ" اخبار نے اس غیر سرکاری اور انسان دوست تنظیم کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ "یورپی یونین ان لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ناقابل رسائی ہوتا جا رہا ہے، جو حمایت کی تلاش میں ہیں اور دوسری طرف غیر سرکاری تنظیموں پر سیاسی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، جس سے یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔" موصولہ خبروں کے مطابق بہت سے معاملات میں، اطالوی کوسٹ گارڈ نہ صرف بپھرے پانیوں میں پھنسے مہاجرین کی مدد نہیں کرتے، بلکہ ڈوبنے والے پناہ گزینوں کو بچانے کے لیے سرگرم انسانی تنظیموں کو مدد سے بھی روکتے ہیں۔
ایس او ایس ہیومینٹی کے مطابق اس سال اٹلی میں این جی او کے جہاز تیرہ بار پکڑے گئے، جس کے نتیجے میں تلاش اور بچاؤ کے کاموں میں تین سو تئیس دن کا وقت ضائع ہوا۔ دوسری طرف اطالوی حکومت نے دیگر یورپی ممالک کی طرح تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کو اپنے ایجنڈے میں رکھا ہوا ہے۔ اٹلی کی دائیں بازو کی وزیراعظم جارجیا میلونی نے گزشتہ سال اٹلی میں امیگریشن کو روکنے کے لیے میٹی پلان کا مسودہ تیار کیا تھا۔ اس منصوبے کے مطابق اطالوی حکومت نے افریقہ سے ہجرت کرنے والے ممالک کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے، تاکہ جن ممالک کے ساحل سے تارکین وطن کی نقل و حرکت شروع ہوتی ہے، اسے وہیں سے روکا جا سکے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں تیس ہزار تین سو نو سے زائد تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی بحیرہ روم کے پانیوں میں ہلاک ہوئے۔ یہ تارکین وطن بنیادی طور پر دور دراز ساحلوں سے انسانی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے ذریعے ان ساحلوں کے راستے اندر آنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں کوسٹ گارڈ کی رسائی کم ہوتی ہے۔ موصولہ رپورٹوں کے مطابق ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد ان اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے، جو بین الاقوامی انسانی تنظیموں اور کوسٹ گارڈز کی طرف سے اعلان کئے گئے ہیں۔ تیونس کے نیشنل گارڈ نے اعلان کیا ہے کہ اس ملک کے کوسٹ گارڈ نے تیونس کے مشرقی ساحل پر 16 تارکین وطن کی لاشیں دریافت کی ہیں، جو بحیرہ روم میں تارکین وطن کو لے جانے والی کشتیوں کے ڈوبنے کی تازہ ترین تباہی ہے۔
تیونس نیشنل گارڈ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا ہے کہ ان تین مختلف علاقوں میں لاشیں ملی ہیں، جو غیر قانونی امیگریشن کے اہم مراکز سمجھے جاتے ہیں۔ تیونس کے ایک عدالتی اہلکار کا کہنا ہے کہ نعشوں کی شناخت کے لیے نمونے لیے گئے ہیں، لیکن وہ بری طرح گل چکی تھیں۔ اطالوی جزیرہ Lampedusa، جو تیونس سے صرف 150 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، زیادہ تر معاملات میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی پہلی منزل ہوتا ہے۔ گزشتہ ماہ بحیرہ روم سے ہجرت کے دوران کم از کم 15 تیونسی شہری، جن میں تین بچے بھی شامل تھے، ہلاک ہوئے جبکہ دس سے زیادہ لاپتہ ہوگئے تھے۔ اس وقت مہاجرین مخالف پالیسیاں یورپ کی حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کی ترجیحات میں شامل ہوگئی ہیں۔ فریقین یورپ میں تارکین وطن کے لیے سخت پالیسیاں اپنانے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ یورپ میں تارکین وطن کی اہم منزل جرمنی کو 23 فروری کو قبل از وقت انتخابات کا سامنا ہے۔
کرسچن یونائیٹڈ پارٹیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ وفاقی الیکشن جیتنے کے بعد غیر قانونی امیگریشن پر روک لگانا چاہتی ہیں۔ ان جماعتوں کے مشترکہ انتخابی پروگرام کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ہم ان لوگوں کو مسترد کریں گے، جو یورپی یونین کی کسی دوسری رکن ریاست یا شینگن کے علاقے سے جرمنی کی سرحدوں سے داخل ہوتے ہیں اور ہم سے سیاسی پناہ کی درخواست کرتے ہیں۔ یورپ میں امیگریشن مخالف پالیسیوں میں شدت کے باوجود، اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بحیرہ روم میں اور یورپ جانے والے خطرناک زمینی راستوں پر جانیں ضائع ہونے کا سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آرہا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے ایک سینیئر اہلکار نے سلامتی کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ صحرا صحارا افریقہ سے تیونس اور لیبیا کے ساحلوں پر سمندری روانگی کے مقامات تک زمینی سفر دنیا کے خطرناک ترین راستوں میں سے ایک ہے۔"
بقول محمود شام صاحب کے مائیں بچے اس لئے نہیں جنتیں، اس لئے نہیں پالتیں کہ بحیرہ روم کی سفاک موجوں کا لقمہ بن جائیں۔ مائیں، بہنیں، باپ، بھائی سب سوگوار ہیں۔ گھر گھر صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ برسوں سے یہ المیے برپا ہو رہے ہیں۔ ہم تین چار دن واویلا کرتے ہیں، پھر ان انسان دشمن اسمگلروں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہوتے ہیں۔ انسانوں کو سمندر کی نذر کرنے والے بھی ہم میں سے ہی ہیں۔ یہاں کے ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹرز، وزراء سب ان کو جانتے ہیں۔ ایس ایس پی، ایس پی، ڈی ایس پی، ایس ایچ او سب ان کو پہچانتے ہیں۔ مسجدوں کے خطیب اور اماموں سے بھی یہ چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ قاتل ہیں، آدم خور ہیں اور ہم اخبار نویس، میڈیا ورکرز سب ان کے سہولت کار ہیں۔ ہم جنوبی ایشیا والے، ہم پاکستان والے سب بے حس ہوچکے ہیں۔ زر کی ہوس میں اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں۔