تحریر: شریف ولی کھرمنگی
آج جو مسلمان سقوط شام پر خوشیاں منا رہے ہیں، انہیں 54 سالہ الاسد فیملی کی ڈکٹیٹرشپ پر خوش ہونے کا بھرپور حق ہے اور جن کے ساتھ اس ڈکٹیٹرشپ میں مظالم ہوئے، انہیں بھی خوش ہونا چاہیئے کہ اب یہ حکومت ختم ہوگئی۔ جو سنی مسلمان سمجھتے تھے کہ علوی شیعہ حکمران کو شکست ہونا ان کیلئے اچھا ہے تو وہ خوشیاں منائیں اور جو لوگ فلسطین اور لبنان جنگ میں مسلمانوں کی حمایت میں شامی حکومت کے کردار کو مثبت اور اہم سمجھتے تھے، انہیں یقیناً غمزدہ ہونا چاہیئے۔ لیکن یہ بات ان سب سمیت پوری دنیا کیلئے سوچنے کی بات ہے کہ جس گروہ نے وہاں کی حکومت کو ختم کیا، وہ ان تمام کیلئے "دہشت گرد" تھا، اس کے سر کی قیمت معین تھی، جو آج خوش ہو رہے ہیں، اسے ہیرو قرار دے رہے ہیں، مالی عسکری، سفارتی اور ہر حوالے سے امداد دے رہے ہیں۔ اسی بابت یہ دلایل بھی بہت سے موقر تجزیہ کار دے رہے ہیں کہ آج خوشیاں منانے والے پانچ سے چھے ماہ بعد اسد حکومت کو یاد کرکے روئیں گے۔ جیسے لیبیا میں قذافی کی حکومت گرنے پر خوش ہونے والوں نے کیا۔
بشار الاسد حکومت کا اس طرح انجام خود ان کی حکومتی استعداد پر سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے، کیونکہ پچھلی مرتبہ جبکہ مغربی اور عرب ممالک ہمسایہ ترکی اور صیہونی ریاست سے ہر ممکن کمک لیکر اطراف سے حملہ آور ہوئے، تب یہ سفارتی محاذ پر بھی بہترین کھیلتے نظر آئے، سیاسی گرفت بھی برقرار رکھی، عسکری طور پر بھی ثابت کیا کہ وہ اپنے ملکی انتظام پر قدرت رکھتا ہے۔ لیکن اس بار تو لڑنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ایک دہائی لڑکر اپنا ملک بچانے والا چند ہفتے بھی کھڑے نہ رہ پائے۔ اس طرح سے ٹوپل ہونے میں غزہ، لبنان، یوکرین جنگ سمیت مقاومتی رہنماؤں کے لرزہ خیز قتل کو بھی وجوہات میں شمار کرسکتے ہیں۔ ان کے اتحادی اور مشکل ترین وقت میں سے نکالنے والے ممالک ایران، عراق اور روس کی جانب سے مذاکرات کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔
اس وقت تک وہ ڈیل سامنے نہیں کہ جس کے تحت بشار الاسد بغیر لڑے ملک چھوڑ گئے، جس کی بابت خبریں ایران، روس، عراق، ترکی اور بعض عرب ممالک کی سفارتی کوششیں چند دن تک متواتر سامنے آتی رہی۔ یہ معمہ بھی قائم ہے کہ بشار الاسد دمشق سے کس ملک کی طرف گئے، غالباً ڈیل کی صورت میں کوئی گارنٹر رہا ہوگا، جس کی جانب سابق صدر پرواز کرگئے۔ سوشل میڈیا اور بعض خبروں میں یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بشار الاسد کے طیارے کو مار گرایا گیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔ اس کے ثبوت کے طور پر فلائٹ ریڈار کا نقشہ پیش کیا جا رہا ہے، جس میں دمشق سے پرواز بھرنے کے کچھ ٹائم کے بعد قریبی شہر کی جانب طیارے کی بلندی کم ہوتی اور اچانک غایب ہو جاتا ہے۔ بہرحال اس کا امکان کم نظر آرہا ہے۔ تیسرا اہم معاملہ شام میں نئے سیٹ اپ کی بابت ہے، جس پر بہت سارے تجزیئے کئے جا رہے ہیں۔
معمر قذافی، صدام حسین، حسنی مبارک، حسینہ واجد وغیرہ کے بعد والے لیبیا اور عراق، مصر، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے حالات پر تجزیہ کار اپنے دلائل پیش کرتے نظر آرہے۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ شام میں ایک طرف ترکی کا اثر نفوذ ہوگا، توانائی کے ذرائع والے علاقوں پر امریکا قابض رہیگا، گولان ہائٹس کی طرف صیہونی پیشقدمی کریں گے اور دمشق سمیت مرکزی شہر حملہ آور طاقتوں کے ہاتھ ہوں گے۔ یہ ساری باتیں وقت کیساتھ بدلتی رہیگی اور اصل حقائق سامنے آئیں گے۔ ان کے ساتھ اہم معاملہ عراق بارڈر اور ایران کی جانب سے خطے میں امور کی بابت حکمت عملی پر پڑنے والے اثرات اور ہونے والی تبدیلیوں کا بھی ہے۔ بشار الاسد کے بعد والا شام اگر عراق والی صورتحال اختیار کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایران کا اثر و نفوذ مختلف ہوگا اور افغانستان یا لیبیا والی صورت بنتی ہے تو مختلف۔ البتہ یہ تو طے ہے کہ روس اور ایران سمیت شام کے ہمسایہ ممالک کی حکومتیں اپنی پالیسیوں کو بشار الاسد والی حالت میں رکھنے کا کوئی جواز فی الحال نہیں رکھتے۔