0
Saturday 7 Dec 2024 11:51

سیرت فاطمیہ میں دینی اقدار اور سیاست کا تعلق(2) 

سیرت فاطمیہ میں دینی اقدار اور سیاست کا تعلق(2) 
تحریر: محمد حسن جمالی

آج پاکستان سمیت بیشتر ملکوں پر حاکم سیاست، دھوکہ دہی، فریب کاری، تملق و چاپلوسی، منافقت، جھوٹ اور شخصی مفاد سے عبارت ہے۔ پہلی قسط میں اشارہ ہوا کہ یہ سیاست نہیں بلکہ شیطنت ہے۔ خاتون محشر کی سیرت میں ایسی سیاست کی مکمل نفی ہوئی ہے۔ آپ (ع) کی سیرت طیبہ میں اسلامی اقدار ہی حقیقی سیاست کی بنیاد ہیں۔ آپ (س) نے کبھی بھی مفاد پرستی اور سیاسی چالبازیوں کو نہیں اپنایا۔ ان کی سیاست میں اصول اور اخلاق کی اہمیت زیادہ تھی۔ پاکستان کی سیاست میں اکثر مفاد پرستی اور ذاتی فائدے کو ترجیح دی جاتی ہے، لیکن حضرت فاطمہ کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ سیاسی فیصلے ہمیشہ حق پر مبنی، عوام کے فائدے اور معقول اصولوں کی بنیاد پر کیے جانے چاہئیں۔

توجہ رہے کہ مفاد پرستی ایک ایسی آفت ہے، جو انسانوں کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے اصولوں، اخلاقیات اور امانتداری کو پس پشت ڈالنے پر مجبور کرتی ہے۔ مفاد پرستی کا بنیادی عنصر ذاتی فائدہ اور عیش و آرام کی جستجو ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے دوسروں کا حق مارنا پڑے یا ظلم و زیادتی کی جائے۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) کا مفاد پرستی کے خلاف موقف اس وقت سامنے آیا، جب انہیں اپنے والد گرامی کے بعد اپنے شوہر کی قربانیوں کے نتیجے میں مختلف سیاسی اور سماجی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت زہرا (س) نے مفاد پرستی کے مظاہر کو کھل کر رد کیا اور اپنی زندگی میں اصولوں اور دیانتداری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جب کچھ مفاد پرستوں نے مفاد پرستی اور اپنی انا کی بنیاد پر نبی کی لخت جگر بیٹی کو ان کے مسلمہ حق سے محروم کیا گیا تو انہوں نے خاموشی اختیار کرنے کے بجائے پوری طاقت سے ان مفاد پرستوں کے خلاف کھل کر آواز بلند کی اور رہتی دنیا تک کے لوگوں کو مفاد پرستی کی سیاست کی قباحت سے آگاہ کیا۔

علی علیہ السلام کی زوجہ مکرمہ نے اپنے عملی اقدامات کے ذریعے تمام مسلمانوں کو یہ سمجھا دیا کہ مفاد پرستی پر مبنی سیاست نہ صرف اپنے لئے جہنم کا کنواں کھودنے کا مترادف ہے، بلکہ دنیا میں بھی یہ ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہے۔ جس کی زندہ مثال نواز شریف اور زرداری کی مفاد پرستی پر مبنی سیاست ہے۔ کیا مفاد پرستی پر مبنی سیاست کی وجہ سے آج ان دونوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا نہیں پڑ رہا۔؟ کیا مفاد پرستی پر مبنی سیاست کے باعث آج نواز شریف اور اس کا خاندان پوری دنیا میں رسوا نہیں ہو رہے۔؟ کیا ہر باشعور انسان آج مفاد پرستی پر مبنی سیاست کی وجہ سے نواز شریف کے خاندان کا دشمن بنا ہوا نہیں؟ کیا مفاد پرستی، جھوٹ، دھوکہ دہی پر مبنی سیاست کی وجہ سے آج نواز شریف اور زرداری کے لئے زندگی جہنم بنی ہوئی نہیں ہے۔؟

بلاشبہ حضرت زہراء کا کردار ان کے دور کے مفاد پرست سیاست دانوں کے سامنے ایک چیلنج تھا۔ ان کی سچائی، ایمانداری اور عدل کا موقف اس دور میں طاقتور لوگوں کے مفادات کے خلاف تھا۔ حضرت زہرا (س) نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں مفاد پرستی کی مخالفت کی اور اس بات پر زور دیا کہ حقیقی کامیابی اصولوں اور امانتداری میں ہے۔ آپ (س) کی سیرت طیبہ اور بلند مفاہیم پر مبنی تعلیمات نہ صرف ان کے دور کے مسلمانوں کے لئے اہم تھیں بلکہ آج بھی وہ جہان بشریت کے لیے ہدایت کی روشنی فراہم کرتی ہیں۔ ان کی زندگی اور ان کے موقف میں یہ بات واضح ہے کہ مفاد پرستی،ظلم اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے۔ صدیقہ طاہرہ (س) کا کردار دینی اقدار اور سیاست کے درمیان ایک اہم پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کی زندگی اور اعمال کا تجزیہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ نے نہ صرف دینی اصولوں کی پاسداری کی، بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی نہایت مضبوط موقف اپنایا۔ آپ کا سیاسی کردار اس وقت کے حالات اور آپ کی زندگی کے اہم ترین واقعات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔

آپ (س) کی سیرت طیبہ اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ اسلام میں سیاسی رہنمائی کا دینی اصولوں سے گہرا تعلق ہے۔ آپ کا سیاسی موقف دین اسلام کے اصولوں سے جڑا ہوا تھا۔ آپ نے کبھی بھی اپنے ذاتی مفادات کو دین کے اصولوں کے مقابلے میں نہیں رکھا۔ آپ کا یہ سیاسی کردار بتاتا ہے کہ دین اسلام میں سیاست کا مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کے ذریعے انسانوں کی فلاح، انصاف کا قیام اور اللہ کی رضا کا حصول ہے۔ آپ (س) نے یہ ثابت کیا کہ اسلامی قیادت کا تعلق دین سے ہے اور سیاست کو بھی دینی اصولوں کے تحت چلانا ضروری ہے۔ آپ کی سیرت نے یہ ثابت کیا کہ سیاست کو دین سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے دین کی سچائی کو سیاست میں بھی برقرار رکھے۔ آپ (س) کی سیرت طیبہ سے یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ دینی قیادت اور سیاسی رہبری کے لئے بنیادی شرط علمی قابلیت، دینی اصولوں کی شناخت اور صاحب بصیرت ہونا ہے۔

چنانچہ جب کچھ لوگوں نے خواہشات نفسانی سے مغلوب ہوکر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو دینی قیادت اور سیاسی رہبری سے دور کیا اور مختلف سازشوں سے لوگوں کو حضرت ابوبکر کی خلافت اور قیادت کو قبول کرنے پر مجبور کر دیا تو اس موقع پر حضرت فاطمہ (س) نے کھل کر حضرت علی علیہ السلام کی امامت، ولایت اور سیادت کا دفاع کیا اور لوگوں پر یہ واضح کر دیا کہ دینی قیادت اور سیاسی رہبری کے لئے سب سے ذیادہ موزوں شخصیت علی علیہ السلام کی ذات ہے، کیونکہ وہ سب سے زیادہ علم، تقویٰ اور بصیرت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کے خطبہ فدکیہ کا ایک حصہ ملاحظہ کریں: "لوگو میں گویا دیكھ رہى ہوں كہ تم پستى كى طرف جا رہے ہو، اس آدمى كو جو حكومت كرنے كا اہل ہے، اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ میں بیٹھ كر عیش اور نوش میں مشغول ہوگئے ہو، زندگى اور جہاد كے وسیع میدان سے قرار كركے راحت طلبى كے چھوٹے محیط میں چلے گئے ہو، جو كچھ تمہارے اندر تھا، اسے تم نے ظاہر كر دیا ہے اور جو كچھ پى چكے تھے، اسے اگل دیا ہے، لیكن آگاہ رہو، اگر تم اور تمام روئے زمین كے لوگ كافر ہو جائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے۔

اس کے جواب میں جناب ابو بکر عبداللہ بن عثمان نے یوں کہا کہ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں، وہی گواہی کے لئے کافی ہے کہ میں نے خود رسول اکرمؐ سے سنا ہے کہ ہم گروہ انبیأء سونے، چاندی اور خانہ و جائیداد کا مالک نہیں بناتے ہیں۔ ہماری وراثت کتاب، حکمت، علم اور نبوت ہے۔ یہ سن کر جناب فاطمہ زہرا ؑ نے فرمایا: "سبحان اللہ، نہ میرا باپ احکام خدا سے روکنے والا تھا اور نہ اس کا مخالف تھا۔ وہ آثار قرآن کا اتباع کرتا تھا۔ کیا تم لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ اپنی غداری کا الزام اس کے سر ڈال دیں۔ یہ ان کے انتقال کے بعد یہ ایسی ہی سازش ہے، جیسی ان کی زندگی میں کی گئی تھی۔ دیکھو یہ کتاب خدا حاکم عادل اور قول فیصل ہے، جو اعلان کر رہی ہے کہ خدایا وہ ولی دیدے، جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوب کا بھی وارث ہو اور سلمان ؑ داؤدؑ کے وارث ہوئے۔

خدائے عز و جل نے تمام حصے اور فرائض کے تمام احکام بیان کر دیئے ہیں، جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے حقوق کی بھی وضاحت کر دی ہے اور اس طرح تمام اہل باطل کے بہانوں کو باطل کر دیا ہے اور قیامت تک کے تمام شبہات اور خیالات کو ختم کر دیا ہے۔ یقیناً یہ تم لوگوں کے نفس نے ایک بات گھڑ لی ہے تو اب میں بھی صبر جمیل سے کام لے رہی ہوں اور اللہ ہی تمہارے بیانات کے بارے میں میرا مدد گار ہے۔ حضرت زہراء کی سیرت طیبہ مسلمانوں کے لیے یقیناً مشعلِ راہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں دینی اور سیاسی ذمہ داریوں کو کس طرح نبھائیں۔ سیرت فاطمیہ میں دینی اقدار اور سیاست میں ناقابل انفکاک اتصال پایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1177058
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش