تحریر: سید نتویر حیدر
انتظار موت سے بدتر ہے لیکن انتظار اگر موت کا ہو تو وہ کسی بھی انتظار سے بدرجہا بدتر ہے اور اگر یہ انتظار زیر زمین بنکروں میں ہو تو اس کی شدت دھماکوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ اسرائیل کے باسی آجکل کسی ایسے ہی انتظار کی کیفیت سے گزر رہے ہیں، جس نے ان کے اعصاب کو شل کر دیا ہے۔ ان کی زندگی کا سفر اب ان کے گھر سے ان کے بنکر تک کا رہ گیا ہے۔جہنم اگر زمین کی تہہ میں ہے تو ان کی آوازیں جہنم کی دیواروں سے ٹکراتی ہوں گی۔ گویا انہیں دیوار گریہ کی سہولت یہاں بھی میسر ہے۔ اسراٸیل کی عوام کو ان کے رہنماؤں نے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں "نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔" یہودی بنیادی طور پر ایک بزدل قوم ہیں۔ موت سے یہ بہت خوف کھاتے ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے قلعہ بند عمارتوں اور اونچی اونچی فصیلوں میں رہتے ہیں۔ اس کی گواہی قرآن نے دی ہے۔
جدید عہد میں یہودیوں کا مرکز اسراٸیل ہے۔ یہودیوں نے اپنے اس مرکز کو آج سے قبل دنیا میں ایک ناقابل تسخیر قلعے کی صورت دی ہوئی تھی، لیکن خیبرشکن کے وارثوں نے اب اس قلعے کی فضا سے اس کی سلفیاں بنانا اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔ عورتوں اور بچوں پر آتش و آہن کی بارش برسانے والے یہ لشکری کس قدر بزدل ہیں، اس کا احوال میں کسی ایسے سالار مقاومت کی زبانی سناتا ہوں، جن کے دیدار کا شرف مجھے بھی حاصل ہوا ہے۔ حزب اللہ کے شہید سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی ایک بار کشمیر کے حوالے سے ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائے۔ ان کے ساتھ ایک نشست میں ان سے سوال کیا گیا کہ آپ بتائیں کہ اسراٸیل جو آپ سے کئی گنا بڑی طاقت ہے، آپ اس سے کس طرح مقابلہ کر لیتے ہیں۔
آپ نے دو نکات میں اس کا جواب دیا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کا وعدہ ہے کہ "ان تنصراللہ ینصرکم" یعنی "اگر تم خدا کی نصرت کرو گے تو خدا تمہاری نصرت کرے گا۔" ان کے بقول ہم چونکہ خدا کے دین اور خدا کے دشمنوں سے مقابلے کے لیے خدا کی نصرت کرتے ہیں، لہذا خدا بھی اسرائیلیوں کے مقابلے میں ہماری نصرت کرتا ہے۔ اسراٸیل سے مقابلے کی انہوں نے دوسری وجہ یہ بتائی کہ اسرائیلی حقیقت میں بہت بزدل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم جب بھی کبھی کسی کارروائی میں انہیں اپنے گھیرے میں لیتے ہیں تو وہ ڈر کے مارے آہ و بکا شروع کر دیتے ہیں۔ آج بھی اسرائیلیوں کو یہی خوف ہے کہ اگر کبھی حزب اللہ سے ان کا آمنا سامنا ہوگیا تو وہ کہاں جائیں گے۔؟ ایک اور سوال بھی جواب طلب ہے کہ اسرائیلی آخر سید حسن نصراللہ کے خطاب سے ڈرتے کیوں ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ جب بھی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ اپنے خطاب کا اعلان کرتے ہیں، اسرائیلیوں کے جگر بیٹھ جاتے ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ دو ہزار چھے کی جنگ جب عروج پر تھی تو اس وقت سید مقاومت نے ایک خطاب کیا تھا، جس کے بعد اسراٸیل جنگ بند کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ ہوا یہ کہ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے آخر میں اسرائیلیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ ہم اب تھوڑی دیر کے بعد اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے والے ہیں اور اس کے تھوڑی دیر بعد حزب اللہ نے اسراٸیل کے ایک جنگی بحری جہاز پر ایسا میزاٸل داغا جس سے اس کے پرخچے اڑ گئے اور اس میں سوار اسراٸیل کے تقریباً بیس کے قریب افراد لقمہء اجل بن گئے۔ حزب اللہ کی اس دھماکہ خیز کارروائی کے بعد اسراٸیل نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ لہذا آج جبکہ اس کی طاقت میں انتہائی اضافہ ہوچکا ہے، سید حسن نصراللہ کے خطاب کی خبر کو سن کر امریکہ، اسرائیل اور اس کے حواریوں کی ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔
آخر میں اپنے کچھ تازہ اشعار قارئین کی نذر ہیں:
شمشیر محض نکلی ابھی ہے نیام سے
جو بت تھا ہل گیا ہے وہ اپنے مقام سے
لہرا دیا گیا ہے لہو رنگ جو علم
اک انقلاب کا ہے یہ اعلان بام سے
اللہ کے دشمنوں سے بڑی جنگ کے لیے
لشکر خدا کا اٹھا ہے اللہ کے نام سے
آغاز جو ہوا ہے، اے فرعون وقت سن!
آغاز یہ جڑا ہے ترے اختتام سے
محور مقاومت کا جو قائم ہے آج، وہ
مربوط ہے امام زمن کے قیام سے
تنویر ہم بھی دیکھیں گے، رکھتے ہیں ہم یقیں
جڑ جائے گا زمانہ یہ اپنے امام سے