تحریر: عرفان علی
پاکستان صوبہ خیبر پختونخواہ ملا کنڈ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس محمد علی گنڈاپور نے تصدیق کی کہ منگل 26 مارچ 2024ء کو 5 چینی باشندوں اور ان کے ڈرائیور شانگلہ خودکش بم دھماکے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ہماری پچھلی تحریر غزہ سیزفائر ریزولوشن سے متعلق تھی، جس میں روس اور چین کے بارے میں بھی نکات شامل تھے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ روس کے دارالحکومت ماسکو شہر سے نزدیک ترین مقام پر کنسرٹ میں حملہ آوروں نے کئی انسان مار ڈالے تو امریکی مغربی زایونسٹ بلاک نے فوری طور یہ نیریٹیو پھیلا دیا کہ داعش دہشت گرد گروہ ملوث ہے اور یوکرین کے معاملے سے گویا اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب یہ کہ چائنیز شہریوں کو ہدف بنا کر خودکش بم دھماکے میں مارا گیا ہے۔ تاحال تین قسم کے گروہوں پر اس کا الزام لگتا ہے، یا انہی گروہوں کے نام سے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ملوث ہیں۔ ایک مخصوص مذہبی مائنڈ سیٹ جس کی کئی شاخیں ہیں اور دو مخصوص لسانی مائنڈ سیٹ، ان کی بھی کئی شاخیں ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ آن ریکارڈ یو ایس امریکا اور اس کے نیٹو فوجی اتحاد کے دیگر ممالک کی رژیم و استثماری نیٹ ورک کا ان سے ربط و تعلق ہے۔ مخصوص مذہبی مائنڈ سیٹ ہو یا لسانی دونوں کی موجودہ شکل کا سرا سابق سوویت یونین کے اشتراکی بلاک والے دور سے گہرا تعلق ہے کہ جب امریکی مغربی نیٹو فوجی بلاک کے دو محوری، دو قطبی عالمی سیاسی نظام و دیگر معاملات سے جا ملتا ہے۔
یوں ان کا اکھاڑہ بنتا ہے افغانستان اور بنتا ہے نیٹو فوجی بلاک کی نیابتی جنگ پراکسی وار کو مقدس اسلامی اصطلاح جہاد کا روپ دینے کے لیے مذہبی بھرتیوں کا مرکز پاکستان اور امریکی یورپی نیٹو فوجی بلاک کے اتحادی عرب ممالک۔ لسانی تنظیمیں ہوں یا مذہبی، پہلے سے مذکورہ بالا دو قطبی نظام کے طفیل سرپرست پاچکی تھیں۔ سوویت کمیونسٹ اشتراکی بلاک لسانی بائیں بازو نظریات کا سرپرست پہلے سے تھا۔ یوں فلسطین کی تحریک آزادی کے اپنے مجاہدین و کامریڈز میں بھی انفلٹریشن پہلے سے ہوچکی تھی۔ اخوان المسلمین میں تکفیری لابی کو نیٹو فوجی بلاک کے اتحادی عرب مسلم بادشاہ شہزادوں کی صورت میں مل چکے ہوتے ہیں فائنانسرز ڈونرز اور خیراتی ادارے نما کام کاج، اور یوں گھستا ہے زایونسٹ اسرائیلی رژیم اپنے دوستوں نیٹو فوجی بلاک کے ساتھ یا انکے ذریعے افغانستان و پاکستان سے جڑے اس عالمی سازشی کھیل میں۔
یہ ساری تفصیلات ماضی میں لکھ چکا ہوں۔ معلومات وہ خود ہی افشاء کرچکے، جو اس کھیل کا براہ راست فعال کردار رہے۔ ان میں یو ایس کی سابق وزیر خارجہ میڈم ہیلری کلنٹن، برطانوی سابق وزیر خارجہ رابن کک، امریکی مرکزی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کے سابق افسران و دیگر اداروں کے سابق حکام۔ مثال کے طور پر پیش کرسکتا ہوں کہ از اول تا حاضر ہر طرف آپ کا قصہ ہے جہاں سے سنیے۔ تو جناب ان سب کا ایک سرا جا ملتا ہے چین سے کہ جہاں کی مسلمان آبادی سے بھی مذہبی بھرتیاں کی گئیں۔ خیر، جب شام کی ایسی کی تیسی کرنے کا آغاز ہوا تو بچے کھچے اور نئے بلونگڑے مذکورہ بالا ممالک سے شام پہنچائے گئے تو چین کے مسلمانوں کا حصہ بھی ڈالا گیا، جو کہ چین کی حکومت کے مخالفین تھے۔
اب جب حضرت آصف علی زرداری نے چین کو پاکستان میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری و چین پاکستان اقتصادی راہداری کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انی شی ایٹیو میں شامل کروانے پر آمادہ کرلیا تو اسکے روٹ میں آگیا پاکستان کا صوبہ بلوچستان تو اس قضیے کا ایک سرا مل گیا بلوچستان سے کہ جو قضیہ افغانستان میں پہلے ہی سے صوبہ خیبر پختونخواہ کی طرح اٹوٹ انگ کے طور جڑا ہوا تھا، یعنی مذکورہ بالا مخصوص مذہبی مائنڈ سیٹ پہلے سے ہی موجود تھا۔ اب پھر زرداری صدر مملکت ہیں، جو بیک وقت سارے کارڈ کھیلنے کی کامیاب صلاحیت ثابت کرچکے ہیں۔
تو جناب بلوچستان کا ربط و تعلق سمجھ آگیا!؟ لیکن ایک اہم ترین نکتہ یاد رکھیں کہ سوویت یونین کے سقوط کے بعد کمیونسٹ سوشلسٹ ہونے لگے یتیم، جبکہ پہلے سے ہی گورباچوف کے دور سے ہی امریکی زایونسٹ نیٹو بلاک خاص طور پر امریکا خود انکے بڑے بڑے دماغوں کا کامیاب خریدار بن چکا تھا اور اس کے لیے بنیں این جی اوز۔ پہلے غیر سرکاری فلاحی ادارے و سماجی بہبود ہوا کرتے تھے تو اب ہوگئیں این جی اوز! بڑے بڑے نامور بکے اور جھکے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پاکستانی کامریڈ پہلے ہی چین اور سوویت یونین گروپس میں تقسیم ہوچکے تھے۔ جب چین امریکا تعلقات براستہ پاکستان دوستانہ ہونے لگے، تب 1970ء کا عشرہ۔
یہ درست پس منظر سمجھے بغیر آپ اس گتھی کو نہیں سلجھا سکتے۔ اب یہ مسائل حل کیوں نہیں ہوتے؟ اس کا جواب ان نکات کو درست طور سمجھ کر درست نتیجہ گیری کرنے میں پوشیدہ ہے۔ وہ یوں کہ ریاست شریف پاکستان نے آج تک یو ایس امریکی زیر قیادت نیٹو فوجی بلاک کو دشمن ریاستیں نہ خود مانا، نہ قوم کو ماننے دیا۔ باوجود سلالہ سانحہ!! اب کوئی یہ پوچھے اور کوئی بتائے کہ بھیا علیحدگی پسند سیپیریٹسٹ دشمن ہیں، جی بالکل ہیں تو انکے نیتا کہاں ہیں۔؟ سارے کے سارے ان کے دوست ممالک میں مزے کر رہے ہیں اور کچھ بھارت میں بھی، آن ریکارڈ حقائق ہیں، با آسانی کنفرم کرسکتے ہیں کہ میں نے سچ لکھا ہے یا نہیں۔
یوں ہوگیا شانگلہ خودکش بم دھماکہ، جو نہ تو اس نوعیت کی پہلی کارروائی ہے اور نہ ہی۔۔۔۔۔!! خدا کرے کہ آخری ہو، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! مذہبی دہشت گردوں کا فرقہ بھی ہے مسلک بھی ہے۔ سرپرست رژیم بھی بہت ساری۔ استثمار بھی ان گنت! مگر ریاست شریف سے پوچھیں کہ دشمن؟؟ نہیں! یہ تو سارے برادر دوست اسلامی!!! تو؟ زیادہ پیچ و تاب مت کھائیں۔ غزہ بے چارہ تنہاء مظلوم نہیں ہے، گو کہ اس مرتبہ بہت زیادہ مظلوم ہے۔ لگ بھگ 33 ہزار شہید ہیں۔ زخمی اس سے بہت بہت زیادہ۔ معلوم ہے کہ پوری امت کو پوری دنیا کو کہ مدد فقط ایران کر رہا ہے، حزب اللہ کر رہی ہے، پھر بھی مجوسی، کافر، رافضی!! بے ضمیری، بے غیرتی، احسان فراموشی کے عالمی مقابلے کے بلا مقابلہ فاتحین! فاتحہ بغیر صلوات پڑھ لی۔ دشمن کو دشمن نہیں کہوگے، بلحاظ عمل ثابت نہیں کروگے تو سانحہ شانگلہ ہوتے رہیں گے۔
میں بس اتنا کہتا ہوں کہ غزہ کو پیٹھ دکھائو گے، ایران و حزب اللہ کو پیٹھ دکھائو گے تو اس کائنات میں عدالت و آزادی کا خدا کہ اس کے علاوہ کوئی اور خدا ہے ہی نہیں، اس کی سنت اٹل ہے، جو ولا تحویلا ولا تبدیلا ہے! سانحہ شانگلا ہو یا سانحہ آرمی پبلک اسکول ہو یا امام رضا (ع) کے حرم کے اندر جو طالبان دور اول کے دوران دہشت گردی سے جو ابھی سال دو پہلے شہادتیںو یا شام (جولان) و لبنان (شبعا فارمز) و فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ہے، سب سلسلے جڑے ہوئے ہیں. حتی کہ اب کنسرٹ پر روس میں حملہ تک جو کہ کسی طور مذہبی ایونٹ نہ تھا وہ بھی. روس اور خاص طور پر چین کی رژیم یہ سمجھ لیں کہ دنیا میں اچھی تبدیلی کی ایک کنجی ان دو کے پاس ویٹو پاور ہے۔
پاکستان رژیم یہ یاد رکھے کہ یہ گھسی پٹی دشمن کو دوست بلکہ محسن ظاہر کرنے کی پالیسی رہی سہی کسر بھی پوری کردے گی، مزید ناکام تجربات سے گریز کرے۔ سی پیک سے اگر رژیم بہتری کی خواہشمند ہے تو پاکستان و چین ایران سہ ملکی الگ سے زیادہ معاونت و بھارت پاکستان شنگھائی فریم ورک کے تحت چین انیشی ایٹیو پر فوکس کریں، کیونکہ سی پیک میں پاکستان کو بھارت سے ایک محدود معاونت درکار ہے۔ اس پر کبھی فرصت میں تفصیل بیان کروں گا۔