تحریر: سید رضا عمادی
گذشتہ منگل کو عراق کی سپریم کورٹ نے اس ملک کی پارلیمنٹ کے اسپیکر "محمد الحلبوسی" کو برطرف کر دیا۔ 2022ء میں محمد الحلبوسی دوسری بار عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر منتخب ہوئے تھے۔ اسپیکرشپ کی دوسری مدت کے تقریباً دو سال گزر چکے ہیں۔ اس طرح محمد الحلبوسی کو عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر رہنے کے کل چھ سال گزر چکے ہیں، گویا سپریم کورٹ نے چھ برس بعد ان کی برطرفی کا حکم دیا ہے۔
الحلبوسی کو عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے عہدے سے ہٹائے جانے کی وجوہات
الحلبوسی کی برطرفی کی مختلف وجوہات تھیں، لیکن غالب نظریہ یہ ہے کہ محمد الحلبوسی کے صیہونی حکومت اور اس غاصب حکومت کی شہریت رکھنے والی کمپنیوں کے ساتھ تجارتی تعلقات تھے۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت سے تعلقات قائم کئے، جو عراقی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ عراقی قوانین میں غاصب صیہونی حکومت اور اس سے منسلک کسی بھی ادارے یا کمپنی سے کسی قسم کے تعلقات جرم ہیں۔
"نارملائزیشن کے مجرمانہ" قانون کے مطابق، کسی بھی عراقی سیاست دان کو صیہونی شیئر ہولڈرز یا کسی ایسی ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ کاروباری معاہدوں پر دستخط کرنے کا حق نہیں ہے۔ عراق کے کسی بھی حکمران یا عہدیدار کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایسی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرے، جن کا ایک کام ملکوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔ عراقی پارلیمنٹ کے آزاد نمائندوں میں سے ایک "باسم درخشان"، جنہوں نے الحلبوسی پر مقدمہ دائر کیا، انہوں نے عدالت کو دستاویزاتی ثبوت دکھائے، جو پارلیمان کے معزول اسپیکر کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتے ہیں۔
محمد الحلبوسی نے مقدم پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ایک غیر ملکی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا، جس نے صیہونی حکومت اور متعدد ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں کردار ادا کیا ہے۔ اس کمپنی کا سب سے بڑا مشیر صیہونی حکومت کا سابق وزیراعظم ایہود باراک ہے۔ درحقیقت عدالت کی جانب سے الحلبوسی کو برطرف کرنے کے فیصلے کی بنیادی وجہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے مجرمانہ قانون کی خلاف ورزی تھی۔ عراقی پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ ایسے عالم میں سامنے آیا ہے کہ صیہونی حکومت گذشتہ 40 دنوں سے زائد عرصے سے غزہ میں نسل کشی کر رہی ہے۔ عراقی عدالت کا یہ فیصلہ، فلسطین کی عملی حمایت کی ایک شکل بھی ہوسکتا ہے۔
ایک اور وجہ محمد الحلبوسی کی جانب سے اپنے عہدے اور اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لیث الدلیمی کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے الحلبوسی نے اس نمائندے کے بارے میں استعفیٰ کا جعلی خط تیار کیا، جو الدلیمی نے عراق کی سپریم کورٹ میں شکایت کے ساتھ پیش کیا۔ الدلیمی، محمد الحلبوسی کی قیادت میں مقدم پارٹی کے رکن تھے، جنہوں نے بعض اختلافات کی وجہ سے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم، محمد الحلبوسی، جن کا مقدم پارٹی کے اندر الدلیمی سے اختلاف تھا، انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ ان کا استعفیٰ نہ صرف پارلیمنٹ میں مقدم دھڑے سے ہے بلکہ "پارلیمنٹ کی نمائندگی" سے بھی انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔
چنانچہ الحلبوسی نے پارلیمنٹ کے اسپیکر کی حیثیت سے لیث الدلیمی کے استعفیٰ کو قبول کرنے کا باضابطہ اعلان کیا اور ان کی خالی نشست پر انتخابی عمل شروع کر دیا۔ دوسری طرف، لیث الدلیمی نے اعلان کیا کہ "انہوں نے کبھی پارلیمنٹ سے استعفیٰ نہیں دیا اور ان سے منسوب استعفیٰ نامہ الحلبوسی کی طرف سے جعلی تیار کیا گیا ہے، اس تناظر میں انہوں نے سپریم کورٹ سے شکایت کی ہے۔ محمد الحلبوسی پارلیمنٹ کی صدارت کے لیے عراقی دستور کے مطابق سنی امیدوار تھے۔ ان کی برطرفی کے بعد، "محسن المندلاوی"، جو پارلیمنٹ کے معزول اسپیکر کے پہلے نائب ہیں، نئے اسپیکر کے انتخاب تک یہ کردار سنبھالیں گے۔ چونکہ "محسن المندلاوی" شیعہ ہیں، اس لیے وہ زیادہ عرصے تک عراقی پارلیمنٹ کے سربراہ نہیں رہ سکتے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ مقدم پارٹی کے رہنماؤں اور نمائندوں نے الحلبوسی کو برطرف کرنے کے حکم کے بعد ایک اجلاس منعقد کیا اور عراقی حکومت کے اجلاسوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مقدم پارٹی کے رہنماؤں کو وفاقی کابینہ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ مقدم پارٹی نے اپنے تین نمائندوں کو مستعفی کرنے کا فیصلہ کیا۔ مقدم پارٹی کے فیصلے کے مطابق عراقی پارلیمنٹ میں اس جماعت کے نمائندے بھی پارلیمنٹ کے تمام اجلاسوں کا بائیکاٹ کریں گے۔ بہرحال وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ سے مقدم پارٹی کے ارکان کا استعفیٰ عراق میں سیاسی چیلنجوں کے ایک نئے دور کی تشکیل کا باعث بن سکتا ہے۔