Monday 18 Sep 2023 22:29
تحریر: نذر حافی
وسائل اور مسائل کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ پاکستان کی سونا اُگلتی سرزمین کے نقشے کو اپنے سامنے رکھئے! بھلا آبی ذخائر، معدنی وسائل، جنگلات، سیاحت، ہوٹلنگ، کوہ پیمائی، کاروبار، ہنرمند، کاریگر، مزدور، جوان اور بہترین دماغ۔ کس چیز کی کمی ہے!؟ اس کے باوجود یہاں امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب آئے روز غریب تر۔ عام لوگ قرضوں، فاقوں اور خودکُشیوں کے درمیان میں جی رہے ہیں۔ اسمگلنگ، بددیانتی، کرپشن اور رشوت کے موجودہ گراف کے ساتھ ہم عوام کو کوئی خوشخبری نہیں سنا سکتے۔ بطورِ مثال ہماری موجودہ وفاقی کابینہ کے نگران وزیراعظم سمیت چند اہم وزراء اور نئے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کا تعلق بلوچستان سے ہے، لیکن اس سے بلوچستان کے عام عوام کو کیا ملے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو کبھی عوام کے اذہان میں اٹھتا ہی نہیں۔ ریمدان اور تفتان بارڈر پر زائرین کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک تصویر کا ایک رُخ ہے۔ اس ناروا سلوک کی آڑ میں کتنے ہی لوگوں نے تجوریاں بھریں اور کتنے ہی نوجوانوں کو زائرین کے روپ میں عراق پہنچا دیا گیا۔
ہمارے بڑوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ ڈنکی کے ذریعے دوسرے ممالک میں روزگار کیلئے جانے والے یہ نوجوان پاکستان کو عزت و سربلندی کے بامِ عروج تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہاں تو ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے کسی کو فرصت ملے تو وہ قوم کے جوانوں کے بارے میں سوچے۔ اگر ذاتی تجوریوں کے بجائے ملکی مفاد کسی کو عزیز ہو تو پھر انہی زائرین کے وسیلے سے ملک میں سی پیک سے اگر زیادہ نہیں تو سی پیک کے مساوی اقتصادی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کیلئے زائرین کے ساتھ بداخلاقی اور لوٹ مار کے بجائے ہندوستان، مقبوضہ کشمیر اور چین کے لوگوں کو بھی زمینی راستے سے بذریعہ پاکستان زیارات و تجارت و تعلیم و دیگر مشاغل کیلئے ایران و عراق جانے کی اجازت دی جائے۔
حکومت نے فقط قانونی اجازت دینی اور نگرانی کرنی ہے، باقی زائرین کیلئے اس روٹ کو رضاکار تنظیموں اور مخیّر حضرات نے حسبِ ضرورت اپنے بل بوتے پر سنوار دینا ہے۔ پلاننگ اور منصوبہ بندی کی جائے تو سارا سال مسافروں کی آمد و رفت اور خصوصاً محرم الحرام اور اربعینِ امام حسین علیہ السلام کے موقع پر اس روٹ سے پاکستان کو کھربوں کا منافع حاصل ہوسکتا ہے۔ اس سے پورے ملک کی ٹرانسپورٹیشن میں اضافہ ہوگا، ہوٹلنگ کا کاروبار بڑھے گا، خرید و فروخت اور بازاروں میں رونق بڑھے گی۔ تعلیمی اداروں اور لوگوں کے درمیان سیر و سیاحت اور مطالعاتی دورہ جات کا رجحان بڑھے گا، اشیائے خورد و نوش کا مصرف و گاہک زیادہ ہوگا، پبلک مارکیٹ کو وسعت ملے گی، لوگوں کے درمیان تنگ نظری، علاقائی تعصبات اور مذہبی شدّت پسندی کے بجائے تہذیبی تعلق و ثقافتی مکالمہ پروان چڑھے گا۔ اس سے ممالک کے درمیان علاقائی رابطے بڑھیں گے اور مزید رفاہی و فلاحی منصوبوں کا دروازہ کھلے گا۔
سرحدوں پر فوجی تناؤ اور عسکری بجٹ میں اضافے کے بجائے پاکستان کے اندر مختلف کمپنیوں، سوسائٹیز، شخصیات اور سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کا موقع ملے گا۔ یہ اتنا بڑا فلاحی و رفاہی اور اقتصادی منصوبہ ہے کہ اس کی بدولت مختلف میدانوں جیسے زراعت، تعلیم، صحت، صنعت و حرفت وغیرہ۔۔۔۔۔ میں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعاون کو ناقابلِ یقین حد تک فروغ ملے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے مثالی ہوسکتے ہیں کہ ہندوستانیوں کو بھی زمینی راستے سے ایران و عراق بذریعہ پاکستان جانے دیا جائے؟ کیا عملی طور پر ایسا ممکن ہے؟ اس کیلئے آپ کو ہماری اگلی قسط کا انتظار کرنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسائل اور مسائل کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ پاکستان کی سونا اُگلتی سرزمین کے نقشے کو اپنے سامنے رکھئے! بھلا آبی ذخائر، معدنی وسائل، جنگلات، سیاحت، ہوٹلنگ، کوہ پیمائی، کاروبار، ہنرمند، کاریگر، مزدور، جوان اور بہترین دماغ۔ کس چیز کی کمی ہے!؟ اس کے باوجود یہاں امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب آئے روز غریب تر۔ عام لوگ قرضوں، فاقوں اور خودکُشیوں کے درمیان میں جی رہے ہیں۔ اسمگلنگ، بددیانتی، کرپشن اور رشوت کے موجودہ گراف کے ساتھ ہم عوام کو کوئی خوشخبری نہیں سنا سکتے۔ بطورِ مثال ہماری موجودہ وفاقی کابینہ کے نگران وزیراعظم سمیت چند اہم وزراء اور نئے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کا تعلق بلوچستان سے ہے، لیکن اس سے بلوچستان کے عام عوام کو کیا ملے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو کبھی عوام کے اذہان میں اٹھتا ہی نہیں۔ ریمدان اور تفتان بارڈر پر زائرین کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک تصویر کا ایک رُخ ہے۔ اس ناروا سلوک کی آڑ میں کتنے ہی لوگوں نے تجوریاں بھریں اور کتنے ہی نوجوانوں کو زائرین کے روپ میں عراق پہنچا دیا گیا۔
ہمارے بڑوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ ڈنکی کے ذریعے دوسرے ممالک میں روزگار کیلئے جانے والے یہ نوجوان پاکستان کو عزت و سربلندی کے بامِ عروج تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہاں تو ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے کسی کو فرصت ملے تو وہ قوم کے جوانوں کے بارے میں سوچے۔ اگر ذاتی تجوریوں کے بجائے ملکی مفاد کسی کو عزیز ہو تو پھر انہی زائرین کے وسیلے سے ملک میں سی پیک سے اگر زیادہ نہیں تو سی پیک کے مساوی اقتصادی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کیلئے زائرین کے ساتھ بداخلاقی اور لوٹ مار کے بجائے ہندوستان، مقبوضہ کشمیر اور چین کے لوگوں کو بھی زمینی راستے سے بذریعہ پاکستان زیارات و تجارت و تعلیم و دیگر مشاغل کیلئے ایران و عراق جانے کی اجازت دی جائے۔
حکومت نے فقط قانونی اجازت دینی اور نگرانی کرنی ہے، باقی زائرین کیلئے اس روٹ کو رضاکار تنظیموں اور مخیّر حضرات نے حسبِ ضرورت اپنے بل بوتے پر سنوار دینا ہے۔ پلاننگ اور منصوبہ بندی کی جائے تو سارا سال مسافروں کی آمد و رفت اور خصوصاً محرم الحرام اور اربعینِ امام حسین علیہ السلام کے موقع پر اس روٹ سے پاکستان کو کھربوں کا منافع حاصل ہوسکتا ہے۔ اس سے پورے ملک کی ٹرانسپورٹیشن میں اضافہ ہوگا، ہوٹلنگ کا کاروبار بڑھے گا، خرید و فروخت اور بازاروں میں رونق بڑھے گی۔ تعلیمی اداروں اور لوگوں کے درمیان سیر و سیاحت اور مطالعاتی دورہ جات کا رجحان بڑھے گا، اشیائے خورد و نوش کا مصرف و گاہک زیادہ ہوگا، پبلک مارکیٹ کو وسعت ملے گی، لوگوں کے درمیان تنگ نظری، علاقائی تعصبات اور مذہبی شدّت پسندی کے بجائے تہذیبی تعلق و ثقافتی مکالمہ پروان چڑھے گا۔ اس سے ممالک کے درمیان علاقائی رابطے بڑھیں گے اور مزید رفاہی و فلاحی منصوبوں کا دروازہ کھلے گا۔
سرحدوں پر فوجی تناؤ اور عسکری بجٹ میں اضافے کے بجائے پاکستان کے اندر مختلف کمپنیوں، سوسائٹیز، شخصیات اور سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کا موقع ملے گا۔ یہ اتنا بڑا فلاحی و رفاہی اور اقتصادی منصوبہ ہے کہ اس کی بدولت مختلف میدانوں جیسے زراعت، تعلیم، صحت، صنعت و حرفت وغیرہ۔۔۔۔۔ میں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعاون کو ناقابلِ یقین حد تک فروغ ملے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے مثالی ہوسکتے ہیں کہ ہندوستانیوں کو بھی زمینی راستے سے ایران و عراق بذریعہ پاکستان جانے دیا جائے؟ کیا عملی طور پر ایسا ممکن ہے؟ اس کیلئے آپ کو ہماری اگلی قسط کا انتظار کرنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1082412
منتخب
26 Dec 2024
26 Dec 2024
25 Dec 2024
25 Dec 2024
25 Dec 2024
25 Dec 2024
25 Dec 2024