ترتیب و تنظیم: علی واحدی
مسلح باغی آج کل شام میں اپنا ہنی مون منا رہے ہیں۔ شام کے موجودہ حکمران احمد الشرع (سابقہ نام ابو محمد الجولانی) ان دنوں بہت زیادہ مصروف ہیں اور تقریباً روزانہ کسی نہ کسی غیر ملکی سفارت کار یا سیاسی عہدیدار کی میزبانی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ شام میں حالات قدرے پرسکون نظر آتے ہیں، لیکن کیا شام میں موجودہ سکون ایک طویل مدتی سکون ہے یا کسی طوفان سے پہلے کا سکون۔؟ شام کے مستقبل کا فیصلہ اس بات پر منحصر ہے کہ تحریر الشام کیا کرنا چاہتی ہے۔ وہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے بڑے حصوں پر قابض ہے، لیکن کیا یہ مسلح باغی شام پر مکمل کنٹرول حاصل کرسکیں گے اور ایک جامع حکومت تشکیل دے سکیں گے۔؟
تحریر الشام چوں چوں کا مربہ
تحریر الشام کی ایک کمزوری یہ ہے کہ یہ مختلف مسلح گروہوں کا اتحاد ہے، جو ایک ہی سوچ اور نظریات کے حامل نہیں ہیں۔ تحریر الشام باغیوں اور مسلح گروہوں کے اتحاد کا نتیجہ ہے، جن کا ایک مشترکہ مقصد بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا اور یہ مشترکہ مقصد ہی انہیں متحد کرتا تھا، لیکن کیا اب جبکہ یہ مشترکہ مقصد پورا ہوگیا ہے تو کیا تحریر الشام کو تشکیل دینے والی مختلف جماعتیں اپنے متنوع اور مختلف نظریات کے ساتھ ایک ساتھ رہ سکیں گی۔؟ یہ تنظیم 28 جنوری 2017ء کو جیش الاحرار، فتح شام محاذ، انصار الدین محاذ، جیش السنه، لواء الحق و تحریک نورالدین زنگی کے مابین انضمام سے تشکیل دی گئی تھی اور کچھ اطلاعات کے مطابق، اس وقت تحریر الشام میں 40 سے زیادہ چھوٹے اور بڑے مسلح گروپ شامل ہیں۔
اس گروپ میں سے کچھ نے اسد حکومت کے خاتمے کے بعد داعش کے ساتھ اسلامی خلافت کے قیام کے مقاصد کے ساتھ تعاون کیا ہے، جس میں نورالدین زنگی تحریک سب سے آگے ہے۔ دوسری طرف، تحریرالشام کے موجودہ رہنماء احمد الشرع، جن کا سابقہ نام ابو محمد الجولانی ہے، انہوں نے نسبتاً حقیقت پسندانہ رویہ اپنایا ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ جولانی کا ماضی کی طرح اب بھی اسلامی خلافت کے قیام کا کوئی ارادہ ہو۔ جولانی نے شام کے اندرونی معاملات پر بھی نرمی کا مظاہرہ کیا ہے، جو اس گروہ کے دیگر مسلح گروپوں کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں کچھ مسلح گروپوں کے اس اتحاد سے علیحدگی کا امکان بہت زیادہ ہے۔
شامی اتحاد کی فوج کا معاملہ
شام کے نئے حکمرانوں کے لئے اپنا کام جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوج کو متحد کریں، لیکن کیا شام میں موجود تمام مسلح گروپ ہتھیار ڈال دیں گے۔؟ اس کے علاوہ، یہ بھی امکان ہے کہ تحریر الشام کے ساتھ منسلک مسلح گروہوں میں سے کچھ گروپ جولانی کے موقف سے اختلاف کی وجہ سے الگ ہو جائیں۔، یہ گروپ مسلح رہیں گے اور ان کی مسلح سرگرمیوں کو جاری رکھنا مستقبل کی شامی فوج کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ دوسری طرف اس بات کا بھی امکان ہے کہ نئے شام میں، فوج کے علاوہ، کئی دوسرے مسلح گروپ بھی سلامتی اور نظم و ضبط قائم کرنے کا دعویٰ کریں، جس سے مستقبل کی شامی فوج کے اقتدار پر سوال اٹھایا جائے گا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ تحریر الشام حکمرانی کا تجربہ کر رہی ہے۔ یہ مسلح باغی اتحاد 2017ء سے شام کے صوبہ ادلب میں حکومت دمشق کے اقتدار سے باہر ایک خود مختار مقامی حکومت بنانے کی کوشش کرتا رہا تھا اور خود کو "حکومتِ نجاتِ شام" قرار دیتا تھا۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں تحریر کردہ ایک رپورٹ میں 2018ء سے 2020ء تک کے دوران تحریر الشام کے حکمرانوں کے تجربات کی رپورٹوں میں شہریوں کے ساتھ اس گروپ کے سخت رویئے کی وضاحت کی گئی ہے۔ خواتین و حضرات کے الگ کیفے، جدا شاپنگ مالز نیز موسیقی پر پابندی، ٹیٹو والے مردوں کے ساتھ برا سلوک اور خواتین کو چہرہ ڈھانپنے پر مجبور کیا گیا۔
ان جیسے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروپ معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ سخت سلوک کرتا ہے۔ ادلب میں 2018ء سے 2023ء تک تحریرالشام کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، ان تمام مظاہروں کو اس گروپ کی فورسز نے سختی سے دبا دیا اور بہت سے لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ دمشق میں اسی طرز عمل کا دوبارہ شروع ہونا شام کے سیکولر معاشرے میں سماجی عدم اطمینان کو بڑھا سکتا ہے اور اس معاشرے کو تحریرالشام کے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
کردوں کے مسائل
تحریر الشام نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ شام میں تمام مسلح گروہوں کے اسلحے کے خاتمے کے لیے ایک اجلاس منعقد کرے گا۔ لیکن اس اجلاس میں ایس ڈی ایف کا کُرد گروپ موجود نہیں تھا۔ مظلوم عبدی کی قیادت میں شامی کرد فورسز شمال مشرقی شام کی مثلث اور دریائے فرات کے بالائی علاقوں پر قابض ہیں۔ جولانی کے کردوں کو شامی شہری تسلیم کرنے کے بیان کے باوجود، کردوں نے مسلح گروہوں کی تخفیف اسلحہ میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ مسلح گروہوں کے ہتھیار ڈالنے کے اجلاس میں کردوں کی غیر موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرد شام کے سیاسی مستقبل میں اپنا حصہ طے کرنا چاہتے ہیں اور وہ آسانی سے ہتھیار ڈالنے کو قبول نہیں کریں گے۔
اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریر الشام، شام میں کردوں کی سیاسی شراکت داری اور اقتدار میں حصہ دینے کے لیے تیار ہے؟ تحریرالشام کی سابقہ اجارہ داری کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ تحریرالشام دیگر نسلی گروہوں بشمول کردوں کے ساتھ سیاسی شراکت نہیں کرے گی اور اس حوالے سے زیادہ لچکدار رویہ بھی نہیں اپنائے گی۔ اس صورت حال میں نئے شام میں کردوں کا معمہ تحریرالشام کے مستقبل کی حکمرانی کے لیے ایک حتمی اور بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہوگا۔