اسلام ٹائمز۔ سابق وفاقی وزیر ساجد طوری نے کہا ہے کہ کرم کا معاملہ شیعہ، سنی کا نہیں ہے، 21 اکتوبر کے بعد سے اب تک سینکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں، فاٹا کے ضم ہونے کے باوجود قبائلی علاقوں میں ریاست کی عمل داری قائم نہیں ہوسکی، ایئر سروس مسائل کا حل نہیں، راستے کھولے جائیں، ایپکس کمیٹی کے فیصلے سے جرگہ کی حیثیت ختم ہوگئی، ایران و سعودی عرب کا کرم کی صورتحال میں کوئی کردار نہیں ہے جو بھی بیرونی ممالک کے ساتھ ملوث ہے ریاستی ادارے اس پر ایکشن لیں، ساتھ دیں گے، جو فوج کے جوانوں کو شہید کررہے ہیں وہی کرم میں ملوث ہیں، لوگوں کو ذبح کرنا ہماری روایت نہیں، یہ داعش و خوارج کا کام ہے، کرم میں موسم بہت سرد ہے اور لوگوں کے حالات بد سے بد تر ہورہے ہیں۔ لوگوں کے پاس بنیادی اشیاء ضروریہ ختم ہوچکی ہیں، اگر سڑکیں فوری نہ کھولی گئیں تو کرم میں انسانی المیہ پیدا ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب، ایدھی اور گورنر سندھ کی امدادی سرگرمیوں پر شکر گزار ہیں، گورنر اور وزیراعلیٰ سے ملاقاتیں ہوئی ہیں لیکن مسائل کا حل نہیں نکل رہا، اگر وفاق اور صوبائی حکومت ہماری بات نہیں سنتی تو پھر ہم آذاد ہوں گے ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم افغانستان کی طرف دیکھیں۔ سابق وفاقی وزیر ساجد طوری نے ان خیالات کا اظہار رکن صوبائی اسمبلی علی ہادی و دیگر کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ 9/11 کے بعد قبائلی علاقے دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہ بنے، کرم میں قبائل میں زمین کا تنازعہ ہوتا رہا ہے، کرم کا معاملہ شیعہ، سنی کا نہیں ہے، فاٹا کے ضم ہونے کے باوجود قبائلی علاقوں میں ریاست کی عمل داری قائم نہیں ہوسکی، 21 اکتوبر کے بعد سے اب تک سینکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں، 75 دن ہوگئے کہ اپر کرم کی سڑکیں بند ہیں، 64 جرگے ہوچکے لیکن وہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد میں ناکام ہیں، داعش، ٹی ٹی ٹی، حافظ گل بہادر گروپ کی، حالیہ مسائل فتنہ الخوارج کی کاروائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 21 اکتوبر کو دوسرے واقعے کے بعد جرگہ دوبارہ فعال ہوتا ہے، وزیر اعلیٰ گنڈاپور کوہاٹ میں جرگہ کرتے ہیں اور کابینہ اجلاس میں فیصلے کرتے ہیں، ایپکس کمیٹی کے فیصلے سے جرگہ کی حیثیت ختم ہوگئی، ریاست کہتی ہے کہ سڑکیں اس وقت تک نہیں کھل سکتیں جب تک دستخط نہیں کرتے، ایئر سروس مسائل کا حل نہیں، راستے کھولے جائیں۔ 22 دسمبر کو طوری قبیلے کے دو لوگوں کو ذبح کیا جاتا ہے، ذبح کرنا ہماری روایت نہیں یہ داعش و خوارج کا کام ہے۔ کرم میں موسم بہت سرد ہے اور لوگوں کے حالات بد سے بد تر ہورہے ہیں، لوگوں کے پاس بنیادی اشیاء ضروریہ ختم ہوچکی ہیں، اگر سڑکیں فوری نہ کھولی گئیں تو کرم میں انسانی المیہ پیدا ہو جائے گا۔ لوگوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب، ایدھی اور گورنر سندھ کی امدادی سرگرمیوں پر شکر گزار ہیں۔ گورنر اور وزیراعلیٰ سے ملاقاتیں ہوئی ہیں لیکن مسائل کا حل نہیں نکل رہا، اگر وفاق اور صوبائی حکومت ہماری بات نہیں سنتی تو پھر ہم آذاد ہوں گے ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم افغانستان کی طرف دیکھیں۔
ساجد طوری نے مزید کہا کہ ایران و سعودی عرب کا کرم کی صورتحال میں کوئی کردار نہیں ہے، جو بھی بیرونی ممالک کے ساتھ ملوث ہے ریاستی ادارے اس پر ایکشن لے، اگر زینبیون ہے تو ریاستی ادارے ہمیں بتائیں ساتھ دیں گے، لیکن فتنہ الخوارج نے 75 دن سے سڑکیں بند کر رکھی ہیں، اسے پہلے کھولا جائے، مسائل کا حل اسی صورت میں ہے کہ فوری کرم کے راستے کھولے جائیں، خطے کے حالات ایسے نہیں کہ کرم کے حالات کو مزید بگاڑا جائے۔ ریاست نہ جانے کیوں ہمیں تحفظ دینے میں مسلسل کوتاہی برت رہی ہے؟ کیا وزیرستان میں آپریشن کے لئے حکومت نے دستخط لئے تھے؟ کرم میں آپریشن کے لئے ہم سے دستخط کیوں چاہتے ہیں؟ جب بھی قافلے پر حملہ ہوتا ہے عوام شہید ہوتے ہیں، محافظ محفوظ رہتے ہیں۔ ایف سی اور فوج کے جوان شہید ہورہے ہیں، فوج کے جوانوں کو کون شہید کررہا ہے؟ جو فوج کے جوانوں کو شہید کررہے ہیں وہی کرم میں ملوث ہیں۔ ہم اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں، شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں اور پورے پاکستان میں ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔