تحریر: محمد کاظم انبارلوی
1۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے کونسل آف فارن ریلیشنز میں کہا ہے۔
الف: ایران دو قطبوں میں تقسیم ہوچکا ہے، دو بڑے گروہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔
ب: ایران کے اندر سے نظام کی تبدیلی ہو رہی ہے۔
ج: امریکہ نے پچھلے بیس سالوں میں تخریبی سوچ رکھنے والوں کو بااختیار بنایا ہے۔
ایرانی عوام کو دو حصوں میں تقسیم کرنا سی آئی اے، موساد اور برطانوی سکیورٹی اداروں کی دیرینہ خواہشات میں سے ایک ہے۔ وہ انقلاب کی فتح کے بعد سے ایران کو قومیتوں، مذاہب اور سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کے خواہاں ہیں، لیکن ملک کے آگاہ اسلامی نظام اور یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے طالب علموں اور عوام نے اپنی بے مثال بصیرت سے دشمنوں کی اس سازش کو ناکام بنایا ہے اور ان کے دوراندیشانہ اقدامات سے دشمنوں کو ہر دور میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ رہبر انقلاب نے حال ہی میں ذاکرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیطان کے لوگ بڑبڑانے اور گالی گلوچ کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ بیوقوفوں کو کباب کی بو آ رہی ہے۔ ایرانی قوم اس میدان میں امریکی ایجنٹوں کو اپنے قدموں تلے روند ڈالے گی۔
2۔ جنگ کے ڈیزائنرز آج کل دو قطبوں میں تقسیم کرنے کے لئے عوام کو، حجاب مخالف حجاب حامی، مذہبی و غیر مذہبی، نیز فلٹرنگ کے حامی اور فلٹرنگ کے مخالف گروپوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ وہ بعض معاشرتی مسائل کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ جتنا بھی کوشش کر لیں، وہ اپنے تفرقہ انگیز مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ایران کی حکومت اور قوم متحد اور منسجم ہے۔ ملک کی طاقتیں عوام کے ساتھ اتحاد اور یکجہتی کی بلندی پر ہیں اور دشمن کی سازشوں اور شرارتوں کے خلاف پہاڑ کی طرح کھڑی ہیں۔ اب لوگوں کو سمجھ آگئی ہے کہ قطب نمائی کا مطلب ہے، ملک کی ترقی میں رکاوٹ اور اپنے مسائل کے حل سے عدم توجہ۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بڑی ذہانت کے ساتھ اس معاملے پر مختلف نظریات کو بیان کرکے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ایران میں گفتگو اور مباحثہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس سے اختلافی مسائل کے حل نکلتے رہتے ہیں۔
3۔ ایرانی عوام نے گذشتہ چند عشروں میں تین بڑے فتنے اپنی عقل و خرد سے برداشت کیے۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دشمن کی جانب سے ایک نیا میدان جنگ تیار کیا جا رہا ہے۔ میڈیا، معیشت، ثقافت اور سیاست کے میدان میں اس کثیر جہتی جنگ کے اس مرحلے کی کئی اہم خصوصیات ہیں۔ دشمن کمزوروں پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور نظام کی ترقی کو چھپاتا ہے۔ اس میدان میں داخل ہونے کا راستہ قومی اتحاد اور اسلامی یکجہتی کو مضبوط بنانا ہے، تاکہ قومی طاقت پیدا کی جا سکے۔ خبروں، رپورٹس اور تجزیوں کی درستگی ضروری ہے۔ اس طرح کے منظرناموں میں بصیرت، ذہانت اور بیداری بنیادی شرط ہے۔ دشمن نے قومی سلامتی کو نشانہ بنایا ہے اور وہ ٹرمپ کی تاجپوشی کے بعد مغربی ایشیا میں وائٹ ہاؤس کی مدد سے ایک نیا کھیل شروع کرنا چاہتا ہے۔ ملک کے سرکاری اداروں کے اقدامات اور صحیح معلومات تک رسائی ضروری ہے۔ میڈیا کے بارے میں شعور اور آگہی میں اضافہ لازم و ملزوم ہے۔ یہ ایک ایسا اصول ہے، جس پر غور کیا جانا چاہیئے۔
4۔ صدر ایران کے بقول یہ علاقہ بارودی مواد سے بھرا ہوا ہے اور یہ علاقہ جنگ سے آلودہ ہے۔ دشمن کو اندر سے پہچاننا ایک درست اور حقیقی اقدام ہے۔ قومی اتحاد اور قومی ہم آہنگی کا جھنڈا بلند کرنا دشمنوں کی برائیوں کا جواب ہے۔ جو اتحاد و ہم آہنگی کی اس سوچ کو توڑتا ہے، اس کی خیر خواہی پر شک کیا جانا چاہیئے۔ حکومت کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر الجھن میں نہیں پڑنا چاہیئے۔ حکومت اور حکومتی اداروں کی کارکردگی پر تنقید کو حکومت اور قوم کے درمیان خلا پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیئے۔ یہ دشمن کی نئی سازشوں میں سے ایک سازش ہے۔