اسلام ٹائمز۔ نگران کے پی حکومت کے دوران محکمہ صحت میں ادویات کی خریداری میں خوردبرد سے متعلق کمیٹی کی سفارشات وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو پیش کردی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق 4.4 ارب روپے کی ادویات کی خریداری میں 1.9 ارب کی خوردبرد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 1.86 ارب کی خریداری غیر ضروری اور غیر ایمرجنسی آئٹمز کی مد میں کی گئی جن کی ڈیمانڈ بھی نہیں تھی۔ 3.17 ارب کے ادویات و آئٹمز اور میڈیکل سامان چند مراکز میں تقسیم کیا گیا جس میں 1.08 ارب مالیت کا سامان صرف چھ میڈیکل مراکز میں تقسیم کیا گیا۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر شمالی وزیر ستان کو ادویات و میڈیکل آئٹمز کی بہت بڑی کھیپ بغیر کسی ضرورت کے ترسیل کی گئی۔ ان غیر ضروری آئٹمز میں گاؤنز ، کنڈومز، ڈسپوزیبل او ٹی شیٹ اور دستانے شامل تھے۔
81 فرمز کو ابتدائی طور پر سلیکٹ کیا گیا جبکہ رقم کی تقسیم اور ادویات صرف 14 فرمز سے خریدی گئیں۔ زیادہ تر ادویات کی خریداری بغیر معائنے کے کی گئی جسکی وجہ سے ناقص ادویات عوام کو دی گئیں۔ ترسیل اور ادائیگی سے پہلے ڈرگ ٹیسٹ کی رپورٹس کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ پانچ کروڑ کی ادویات ایک ایسی فارما کمپنی سے لی گئی جن کے ادویات کے سب اسٹینڈرڈ ہونے کی رپورٹ موجود ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن کے مد میں بے جا اخراجات کیے گئے۔ بلوں کی ادائیگی میں غیر متعلقہ اداروں کو استعمال کیا گیا۔پرچیز آرڈرز کو مختص کردہ تخمینہ جات سے زیادہ کرکے خزانے پر بوجھ کو بڑھایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق فیکٹری قیمت کے بجائے 10 فیصد سے 45 فیصد زائد ریٹیل قیمت پر ادویات کو خریداگیا۔ پالیسی کے اندر ڈرگ ٹیسٹنگ کی شرط کو جان بوجھ کر ختم کیا گیا جس سے غیر معیاری ادویات کی خریداری ممکن بنا دی گئی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نیب پشاور نے اس ضمن میں پہلے سے ہی ایک انکوائری کا حکم دے رکھا ہے۔ اسلئے نیب کے قانون سیکشن 18 (ڈی) کے مطابق انکوائری رپورٹ کے ساتھ تمام ریکارڈ بھیجنے کو کہا گیا ہے۔ تاکہ لوٹی ہوئی رقم کو ریکور کیا جائے اور ملوث افراد کے خلاف فوجداری کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کمیٹی نے حکومت کو 2015 کی ادویات کی خریداری کی پالیسی میں چند تبدیلیاں لانے کے بعد کابینہ سے منظور کروانے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی سفارشات بھی پیش کیں۔