0
Saturday 2 Nov 2024 08:19
ایران اپنے میزائلوں کی رینج بڑھا سکتا ہے

ایٹم بم کی تیاری سید علی خامنہ کے لبوں کی حرکت کی دوری پر ہے، کمال خرازی

خطرہ سنگین ہوا تو جوہری پالیسی تبدیل کر لیں گے
ایٹم بم کی تیاری سید علی خامنہ کے لبوں کی حرکت کی دوری پر ہے، کمال خرازی
ڈاکٹر خرازی کا المیادین کو انٹرویو: اگر کوئی سنگین خطرہ لاحق ہوا، تو ایران اپنی جوہری پالیسی میں تبدیلی کر دے گا، ہمارے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود ہے اور اس حوالے سے ہمیں کوئی مشکل نہیں، صرف رہبر معظم کا فتویٰ اس وقت اس عمل کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ کمال خرازی کے یہ الفاظ امریکہ، یورپ، اور اسرائیل کے خلاف ایک واضح دھمکی ہیں، جس میں انہیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ ایران کے پاس نہ صرف ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود ہے بلکہ وہ انہیں دنیا کے کسی بھی حصے میں پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ ایران کے معاملے میں احتیاط برتی جائے اور ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر کو جوہری پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔

اصل نکتہ یہ ہے کہ جب مغربی ممالک ایران پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہیں، اس کی جغرافیائی سالمیت اور سلامتی پر حملے کرتے ہیں اور ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کوئی فائدہ یا ترغیب باقی نہیں چھوڑتے، تو تہران کیوں خود کو ان کی حساسیتوں اور سرخ لائنوں کو مدنظر رکھنے کا پابند سمجھے؟ْ ڈاکٹر خرازی کے مطابق سبھی ایران کی میزائل قوت کو تسلیم کرتے ہیں۔ صرف مسئلہ میزائلوں کی رینج کا ہے، جسے اب تک مغربی اور یورپی ممالک کی حساسیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محدود رکھا گیا تھا۔ لیکن جب وہ ہماری حساسیتوں کا خیال نہیں رکھتے، تو ہمارے پاس بھی ان کی حساسیتوں کو مدنظر رکھنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی، لہٰذا جوہری پالیسی میں تبدیلی اور ایران کے میزائلوں کی رینج میں اضافے کا امکان موجود ہے۔

سید کمال خرازی نے جمعہ کو المیادین نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت نے غزہ اور لبنان کے خلاف جنگ میں غلط اندازے لگائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی یہ سوچتے تھے کہ غزہ اور لبنان پر حملہ کر کے وہ حماس اور حزب اللہ کو ختم کر سکتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کی شہادت کے بعد یہ عوامی تحریکیں کمزور ہو جائیں گی، یہ ان کی غلط فہمی تھی، اسرائیل میں بھی بہت سے لوگوں نے ان غلط تخمینوں کا اعتراف کیا ہے، کیونکہ مزاحمت اور آزادی کے تصور کو فوجی کارروائیوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

خارجہ تعلقات کی اسٹریٹجک کونسل کے سربراہ سید کمال خرازی نے شیخ نعیم قاسم کو حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل کے طور پر منتخب ہونے پر مبارکباد دی اور ان کی کامیابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یقیناً، شیخ نعیم قاسم کی قیادت میں حزب اللہ اپنی طاقت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے گا، مرحوم سید حسن نصراللہ کی حکمت عملی میں یہ شامل تھا کہ انہوں نے اپنے جانشین اور حزب اللہ کے مختلف عہدوں کے لیے ایسے افراد کی تربیت کی تھی، جو فوراً مزاحمت کے پچھلے رہنماؤں کی جگہ لے سکیں، اس حکمت عملی کی بدولت آج حزب اللہ اپنی طاقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اسرائیل کی یہ خواہش کہ ان کی شہادت کے ساتھ ہی حزب اللہ کمزور ہو جائے، پوری نہیں ہوئی۔

انٹرویو کا متن:

سوال: رہبر انقلاب، آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کیخلاف جارحیت کے بارے میں فرمایا کہ اسرائیل نے بے وقوفی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی حکام اسرائیل کو جواب دینے کے طریقہ کار کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔  کیا ایران "وعدہ صادق 3"  آپریشن کے لیے تیار ہے؟
ڈاکٹر سید کمال خرازی:
یقیناً ایران مناسب وقت اور مناسب انداز میں جواب دے گا۔ اسرائیل کے بارے میں جو بنیادی مسئلہ ہے، وہ ان کی غلط حکمت عملی ہے۔ اسرائیلیوں نے شروع سے ہی غلط اندازے لگائے۔ انہوں نے سوچا کہ غزہ اور لبنان پر حملہ کر کے وہ حماس اور حزب اللہ جیسی تحریکوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی سمجھا کہ حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کی شہادت کے بعد یہ عوامی تحریکیں کمزور ہو جائیں گی، لیکن یہ ان کا غلط اندازہ تھا۔ خود اسرائیل میں بھی کئی افراد ان غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔

مزاحمت اور آزادی کی خواہش کو فوجی کارروائیوں کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا، اور یہ انسانی تاریخ کا تجربہ ہے۔ اسی وجہ سے حماس اور حزب اللہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ سید حسن  نصر اللہ، جو حزب اللہ کے قائد تھے، کی شہادت کے باوجود، یہ تحریک مضبوطی سے قائم ہے۔ حال ہی میں، شیخ نعیم قاسم کو ان کا جانشین منتخب کیا گیا ہے، جو 30 سال سے حزب اللہ میں اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں اور تنظیم کے تمام امور سے واقف ہیں۔ ان کی قیادت میں، حزب اللہ اپنی سرگرمیاں مضبوطی کے ساتھ جاری رکھے گا۔
 
سوال: کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وعدۂ صادق 1 اور 2 آپریشنز اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کے بعد، آپ کا ملک ڈیٹرنس کی حد سے آگے بڑھ کر اسرائیل کے ساتھ عملی جنگ میں داخل ہو چکا ہے؟ اگر ایران کی جانب سے اسرائیل کو جواب دینے کے بعد یہ جنگ مزید پھیلتی ہے تو کیا ایران اس کے لیے تیار ہے؟
ڈاکٹر سید کمال خرازی:
ہم جنگ کے لیے تیار ہیں، مگر ہماری خواہش نہیں کہ یہ جنگ پورے خطے میں پھیل جائے۔ ہم نے اسرائیل کے خلاف اپنی حملوں کے ذریعے اپنی بازدارندگی کی صلاحیت کو ثابت کر دیا ہے۔ لہذا اگر اسرائیل اپنی جارحیت جاری رکھنا چاہے گا تو فطری طور پر ہم بھی جواب دینے کے لیے تیار ہوں گے۔

سوال: آپ نے شہید سید حسن نصراللہ سے کئی بار ملاقات کی ہے۔ اس عظیم انسان اور کمانڈر کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے مظلوموں، خصوصاً فلسطین کے مقصد کے لیے ثابت قدمی، ایمان اور صداقت کا مظاہرہ کیا اور آج قدس کی راہ  میں  سیدالشہداء ہو گئے ہیں؟
ڈاکٹر سید کمال خرازی:
شہید نصراللہ ایک طاقتور، حکیم، بہادر اور عوامی رہنما تھے۔ یہی خصوصیات انہیں عالمِ اسلام کا ایک عظیم سیاستدان بنانے کا باعث بنیں۔ بلاشبہ ایسے عظیم رہنما کا نقصان سب کے لیے، بالخصوص لبنانی عوام کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے جن کی سلامتی حزب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آزادی کے تحاریک نے اپنے عظیم رہنما کئی بار کھوئے ہیں، مگر ان کی جگہ لینے والے موجود ہوتے ہیں۔ شہید نصراللہ کی حکمت عملیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے حزب اللہ کے مختلف عہدوں کے لیے ایسے افراد کی تربیت کی جو فوراً ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ اسی حکمت عملی کی بدولت آج حزب اللہ اپنی طاقت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور اسرائیلیوں کی یہ خواہش کہ ان کی شہادت کے بعد حزب اللہ ٹوٹ جائے، پوری نہیں ہوئی ہے۔ حزب اللہ میدانِ جنگ اور سیاست میں اپنی مضبوط موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

سوال: سیاسی، عسکری اور سیکیورٹی کے چیلنجز کے درمیان، حزب اللہ نے شیخ نعیم قاسم کو اپنا سیکرٹری جنرل منتخب کیا۔ حزب اللہ کے اتحادیوں کے لیے اس انتخاب کی کیا اہمیت ہے؟ خاص طور پر ایران کے لیے اس کے کیا اثرات ہیں؟ اور یہ انتخاب موجودہ دور میں سفارتی کوششوں کی کس طرح مدد کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر سید کمال خرازی:
شیخ نعیم قاسم پہلے سے ہی سیاسی میدان میں سرگرم اور اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ لبنانی عوام اور حزب اللہ کی اعلیٰ کونسل کو مبارکباد دینا بنتی ہے کہ انہوں نے شہید نصراللہ کے جانشین کے طور پر انہیں منتخب کیا۔ ایران کے حکام نے بھی اس انتخاب پر مبارکباد دی ہے، اور میں بھی اپنی طرف سے اس انتخاب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یقینی طور پر، حزب اللہ ان کی قیادت میں اپنے فرائض کو طاقت کے ساتھ جاری رکھے گا۔

سوال: علاقائی اور بین‌الاقوامی سطح پر غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کے مذاکرات کی کیا امیدیں ہیں؟ ایران کی سفارتکاری کس طرح سے اسرائیل کو جنگ بندی قبول کرنے کے لیے دباؤ میں لا سکتی ہے، خاص طور پر لبنان میں؟
ڈاکٹر سید کمال خرازی:
ایران غزہ اور لبنان میں جنگ بندی مذاکرات میں براہ راست مداخلت نہیں کر رہا ہے۔ یہ فلسطینیوں اور لبنانیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مفاد میں مذاکرات کریں۔ تاہم، ہم ان کے ہر فیصلے کی مکمل حمایت کریں گے۔

سوال: مغرب کے ساتھ تعلقات اور امریکہ کے ساتھ  بلواسطہ  مذاکرات کے حوالے سے ایران کی پالیسی کیا ہے، خاص طور پر جب امریکہ انتخابات کی تیاری کر رہا ہے؟ کیا ایران اب بھی جوہری معاہدے کے حصول کے لیے مذاکراتی راستے پر قائم ہے؟
ڈاکٹر سید کمال خرازی:
ہم مذاکرات اور پہلے سے کیے گئے معاہدوں کے پابند ہیں، بشرطیکہ دوسری جانب سے بھی ان کی پاسداری ہو۔ افسوس کے ساتھ، مخالف فریق معاہدوں پر قائم نہیں ہے اور مذاکرات کے بجائے ایران پر پابندیاں لگانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

سوال: اسٹریٹجک لحاظ سے ایران، روس اور چین کے ساتھ مل کر ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل میں کیا اہداف رکھتا ہے اور اس سمت میں کیا عملی اقدامات کر رہا ہے؟
ڈاکٹر سید کمال خرازی:
روس اور چین ایک نئے عالمی نظام کی تلاش میں ہیں جو دنیا کو مغربی تسلط سے آزاد کرے۔ اس حوالے سے ایران کے ان سے گہرے تعلقات ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ ابھرتی ہوئی طاقتوں، جن میں ایران بھی شامل ہے، کو اس نئے نظام میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دنیا کو زیادہ جمہوری انداز میں چلایا جا سکے اور وہ مالی اور سیاسی لحاظ سے مغرب کے زیرِ اثر نہ ہو۔ اس مقصد کے تحت، ایران نے شنگھائی تعاون تنظیم، بریکس، اور نیو ڈویلپمنٹ بینک جیسے اداروں میں شمولیت اختیار کی ہے اور ایک نئے عالمی نظم کی سمت بڑھنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

سوال: روس کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون کے معاہدے پر دستخط کیوں مؤخر ہوئے اور یہ کب تک متوقع ہیں؟
ڈاکٹر سید کمال خرازی:
یہ معاہدہ مکمل طور پر تیار ہے اور ایران و روس کے درمیان تعلقات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ بریکس کی حالیہ اجلاس کے دوران، قازان میں اس پر دستخط متوقع تھے، لیکن اس بات کو ترجیح دی گئی کہ یہ کسی دوطرفہ دورے کے دوران انجام پائے تاکہ اس کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔ ان شاء اللہ، اس پر جلد دستخط ہو جائیں گے۔

سوال: آپ پہلے شخص تھے جنہوں نے کہا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کو دھمکی دی گئی یا اس پر حملہ ہوا تو وہ اپنی ایٹمی پالیسی کو تبدیل کر سکتا ہے۔ آپ کے کہنے کا مقصد کیا تھا؟
ڈاکٹر سید کمال خرازی:
ہمارا مؤقف ابھی تک قائم ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کو وجودی خطرے کا سامنا ہوا تو ہم اپنی دفاعی حکمت عملی کو بدلنے پر مجبور ہوں گے۔ ہمارے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود ہے اور اس پر عمل درآمد میں واحد رکاوٹ، رہبرِ اعلیٰ کا وہ فتویٰ ہے جو ایٹمی ہتھیار بنانے سے منع کرتا ہے۔ میزائلوں کے لحاظ سے، ہماری قوت مسلم ہے اور آپریشن ’’وعدہ صادق‘‘ نے اس کو مکمل طور پر ثابت کیا ہے۔ اب تک ہم مغربی دنیا، خاص طور پر یورپی ممالک کی حساسیت کا لحاظ کر رہے تھے، مگر اگر وہ ہمارے حساس معاملات، خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کی سالمیت کا احترام نہیں کرتے تو ہمارے پاس بھی ان کی حساسیت کو نظرانداز کرنے کی وجوہات موجود ہیں۔ لہذا، امکان ہے کہ ایران کے میزائلوں کی رینج کو بڑھایا جائے۔

سوال: سعودی عرب، مصر اور ترکی کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایران نے کیا نقطۂ نظر اپنایا ہے؟
ڈاکٹر سید کمال خرازی:
ایران کی حکمت عملی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا ہے، قطع نظر اس کے کہ وہاں کس قسم کی حکومت ہے اور کچھ اختلافات بھی موجود ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ہم سب مل کر خطے میں امن اور استحکام کے لئے کام کریں۔ ہمارے اردگرد کے ممالک بھی اس حکمت عملی سے واقف ہیں، اور ہم اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ البتہ، کچھ افراد اس حکمت عملی سے ناخوش ہیں اور ایسی منفی باتیں کر سکتے ہیں جو کہ خطے کے مفاد میں نہیں ہیں۔ حال ہی میں بحرین کے بارے میں ایک تاریخی حقیقت بیان کی تھی کہ ایک وقت میں بحرین ایران کا حصہ تھا اور ایران کے چودھویں صوبے کے طور پر جانا جاتا تھا۔ البتہ، اب بحرین ایک آزاد عرب ملک ہے اور ہم اسے بطور ایک آزاد ملک تسلیم کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے میرے اس بیان کو آزادی بحرین کے خلاف سمجھا، حالانکہ میں نے محض ایک تاریخی حقیقت بیان کی تھی۔

اختتامِ:
انٹرویو کے لئے وقت دینے کا شکریہ۔ امید ہے کہ یہ نابرابر جنگ جس میں ایک طرف اسرائیل جیسے قابض اور انسانیت دشمن قوت ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے وجود اور زمین کے دفاع میں کھڑے ہیں، جلد اختتام پذیر ہوگی۔ اسرائیل تباہی، نسل کشی اور ظلم کے ذریعے فتح کا سوچتا ہے، مگر یہ جیت نہیں بلکہ انسانیت کی نفی ہے۔ اسرائیل نے "آنروا" کو فلسطین میں اپنی سرگرمیاں روکنے پر مجبور کر کے اور غزہ کے عوام کو خوراک اور پانی سے محروم کرنے کی کوشش کر کے انسانیت کے خلاف انتہا درجے کا جرم کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ دنیا بیدار ہوگی اور اسرائیل پر دباؤ ڈالے گی۔ بدقسمتی سے مغربی ممالک، چاہے یورپ ہو یا امریکہ، اس مجرمانہ ریاست کو پیسے اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ مگر آخر میں انسانوں کے عزم کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطینی اور لبنانی عوام فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ ان مظالم کے سامنے ڈٹے رہیں گے اور آخری فتح تک مقابلہ کریں گے۔
شکریہ!

ناظرین کا بھی شکریہ جو ہمارے ساتھ رہے۔ اللہ حافظ، دوبارہ ملاقات تک۔
خبر کا کوڈ : 1170216
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش