تحریر: سید تنویر حیدر
اب اس میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ ایران اسرائیل کے ناکام حملے کے جواب میں اس پر حملہ کرنے جا رہا ہے۔ ایران نے اسرائیل کی تازہ جارحیت کو اپنے ہونے والے نقصانات کی سطح کی بجائے اپنی ارضی سالمیت کو پہنچنے والے نقصان کی گہرائی کے تناظر میں دیکھا ہے۔ وہ خود پر لازم سمجھتا ہے کہ اپنی غیرت قومی کے تحفظ کے لیے جارح کو مناسب سبق سکھائے۔ اگرچہ بعض قوتیں ایران کو یہ سمجھانے کی مسلسل کوشش کر رہی ہیں کہ وہ اپنے اس جوابی اقدام سے اجتناب کرے، لیکن ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل عزیز نصیر زادہ نے اس طرح کا مشورہ دینے والوں کو جو بات سمجھائی ہے، وہ یہ کہ ایران اپنی سرزمین پر اسرائیل کی کسی بھی جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا۔
ان کے بقول خواہ یہ جارحیت ایران کے صحراؤں میں سے کسی ایک صحرا کی طرف ایک تیر پھینکنے کی حد تک معمولی اور بے اثر ہی کیوں نہ ہو، ایران اس کا جواب ضرور دے گا۔ اسرائیل سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے اپنی کارروائی کو بڑھا چڑھا کر اس انداز میں پیش کیا، جس سے دنیا پر یہ ظاہر ہو کہ ایران دفاعی اعتبار سے اپنی سلامتی کا تحفظ کرنے کے اہل نہیں ہے۔ اسرائیل کی طرف سے جنگ کے بھڑکائے گئے موجودہ شعلوں میں بین الاقوامی سطح پر ایران کے حوالے سے اس قسم کے تصور کا جنم لینا، ایران اور اس کی سرپرستی میں تشکیل پانے والے محور مقامت کے لیے کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے، لہذا ایران کی قیادت نے ضروری سمجھا کہ ایسے کسی خیال خام کو پنپنے سے پہلے ہی اس کی بیخ کنی کر دی جائے۔
ایران نے یہ تو نہیں بتایا کہ وہ ”وعدہ صادق 3“ کے تحت غاصب صیہونی حکومت کے خلاف کس طرح کا قدم اٹھائے گا۔ البتہ یہ بتا دیا ہے کہ وہ جو بھی قدم اٹھائے گا، امریکہ کے الیکشن سے پہلے اٹھائے گا۔ امریکی الیکشن میں اب چند روز ہی رہ گئے ہیں۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ شاید اسرائیل ایران کے حملے سے قبل ہی ایران پر کوئی Preemptive Attack کر دے۔ مثلاً اسرائیلی سٹیٹ براڈ کاسٹر ”کین“ کے کہنے کے مطابق ممکن ہے کہ اسرائیل ایران پر بڑے پیمانے کا پری ایمپٹو اٹیک کرے۔ بعض اسرائیلی تھنک ٹینکس اگرچہ اپنی حکومت کو اس قسم کے پیشگی حملے کا مشورہ دیتے رہے ہیں، لیکن شاید اب اس کا وقت ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔
امریکہ بھی اب ایران کے مقابلے میں براہ راست جنگ میں کودنے کے حوالے سے جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ایران سے براہ راست الجھنے سے گریز کرے، کیونکہ اس نے ”وعدہ صادق 2“ اور اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے ایران کی ضربِ آہنی کے جواب میں محض ہوا میں اپنا مکہ لہرانے کی مشق کو دیکھ کر زمینی حقیقت کا کافی حد تک اندازہ کر لیا ہے۔ اسرائیل کی اس بے جان سی کارروائی نے خود امریکہ کو شرمندہ کر دیا ہے۔ نیتن یاہو نے اپنی خفت کو مٹانے کے لیے اور اسرائیل کی سیاست میں خود کو زندہ رکھنے کے لیے یہ کارروائی ایسے میں انجام دی ہے، جب خود اسرائیل کے عوام اسرائیل کی سڑکوں پر روزانہ کی بنیاد پر اس کا جنازہ نکال رہے ہیں اور اس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس لاحاصل جنگ کو فوری طور پر بند کرے۔
امریکہ بھی فوری طور پر اسرائیل کی حمایت میں اب زیادہ آگے جانے کا خواہشمند نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دن امریکہ میں الیکشن کے دن ہیں۔ لگتا ہے کہ اس دفعہ کا الیکشن امریکہ کو اپنی تاریخ کے ایک نئے بحران سے دوچار کر دے گا۔ اب تک رائے عامہ کے مختلف جائزوں کے مطابق امریکہ کے دونوں صدارتی امیدواروں، ڈونلڈ ٹرمپ اور کامیلا ہیرس کے درمیان محض چند پوائنٹس کا فرق ہے۔ یہ فرق کسی کے حق میں بھی اوپر تلے ہوسکتا ہے۔ گویا ایک نقطے کا فرق بھی عوام کی عدالت میں کسی کو مجرم یا محرم بنا سکتا ہے۔ امریکہ میں بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس الیکشن کے نتائج آنے کے بعد بھی یہ جاننا مشکل ہوگا کہ کون جیتا ہے اور کون ہارا ہے۔ چار سال قبل کے الیکش میں جس ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ناکامی پر کافی اودھم مچایا تھا، اس الیکشن میں بھی وہ اپنی آستینیں چڑھائے ہوئے ہیں۔ ان کی ڈرامائی حرکتیں اس الیکشن کو بھی دلچسب بنا رہی ہیں۔
حال ہی میں صدر بائیڈن کے ٹرمپ کے ووٹروں کو طنزاً Garbage (کچرا) کہنے پر ٹرمپ ایک کچرا اٹھانے والے کی وردی پہن کر، کچرا اٹھانے والے ایک ٹرک میں بیٹھ کر اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے اس ملک میں جو گند پھیلایا ہے، وہ اسے صاف کریں گے، ان کے رویئے اور ان کی نفسیاتی حالت کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں وہ اپنی مبینہ شکست کی صورت میں کس قسم کا ”فساد فی الارض الامریکہ“ برپا کریں گے؟ اس طرح کی ممکنہ صورت حال سے نمٹے کے لیے امریکہ کے سکیورٹی اداروں نے ابھی سے اپنے آپ کو ہائی الرٹ کر لیا ہے۔ امریکہ کے افق پر تخلیق ہوتے ہوئے اس منظر نامے میں امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ کو ایران کے حکومتی نظام کو گرانے کی بجائے اپنے نظام حکومت کو بچانے کی فکر کرنا ہوگی۔
پانچ نومبر کو امریکہ میں الیکشن ہو جائے گا، لیکن اقتدار کی باقاعدہ منقلی کا مرحلہ کہیں جنوری میں اختتام پذیر ہوگا۔ اس درمیانی عرصے میں الیکشن جیتنے والا کوئی بھی ہوشمند سیاستدان لیلیٰ اقتدار کے مزے لوٹنے سے پہلے ہی ایران کو چھیڑنے کے لیے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے پرہیز کرے گا۔ امریکی عوام بھی اس موقع پر اپنی حکومت کو اس مجرم نیتن یاہو کے لیے اپنے ملکی مفادات قربان کرنے کی اجازت نہیں دے گی، جس کی اپنی عوام بھی اس سے نفرت کرتی ہے۔ امریکہ میں اسرائیل کی صیہونی لابی بھی اب پہلے کی طرح متحرک نہیں رہی۔ باراک اوباما کے آخری دور میں ہی اس لابی کے خلاف ایک ایسی لابی حرکت میں آگئی تھی، جو امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بڑھتے ہوئے رومانس کو دیکھنا پسند نہیں کرتی۔