تحریر: مرتضیٰ مکی
جنیوا میں ایران اور یورپی ٹرائیکا کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کے آغاز کے موقع پر "Axios" نیوز سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا بھر میں موجودہ تمام بحرانوں کے باوجود، یورپی ٹرائیکا کے سینیئر سفارت کاروں نے ایران کے ساتھ نئے جوہری معاہدے کے حوالے سے ایران سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ خبر چائنہ نیوز نیٹ ورک کو ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کے حالیہ انٹرویو اور جوہری معاہدے تک پہنچنے کے لیے امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے ایران کی آمادگی اور خواہش کے حوالے سے ان کے بیانات کے جواب میں شائع ہوئی ہے۔ ایران کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور کا خیرمقدم کرنے والے یورپیوں کے ان مثبت پیغامات کے باوجود فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ایران کے خطرات کے بارے میں بے بنیاد دعوے کئے ہیں۔
فرانس، جرمنی اور برطانیہ وہ تین ممالک ہیں، جو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ایران کے ساتھ 3+1 یا 5+1 کی شکل میں بات کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں بھی برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ ان تمام سالوں میں ایران فوبیا کا ماحول بنا کر یہ یورپی ممالک ایران پر سیاسی دباؤ ڈالنے اور مسائل حل کرنے کی بجائے ایران کو مذاکرات کی میز پر ملزم کی حیثیت سے کھڑا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے پہلے دن سے ہی یورپیوں نے کبھی بھی اسلامی انقلاب کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا۔ وہ اسلامی ایران کی حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔
ایران کے بارے میں مغربی پالیسی ایران میں مقبول حکومت کی شبیہ کو خراب کرنا اور علاقائی و عالمی سطح پر ایرانوفوبیا کو فروغ دینا ہے۔ ان تینوں یورپی ممالک نے کبھی بھی ایرانی عوام کی شاہ کے خلاف جدوجہد اور ماضی کی آمرانہ حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف اس ملک کے عوام کی حمایت نہیں کی۔ انہوں نے اسی پالیسی کو اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد بھی جاری رکھا اور ایران کے خلاف صدام کی آمرانہ حکومت کی جارحیت کی بھی حمایت کی۔ فرانس سمیت یورپی حکومتوں نے صدام جیسی حکومت کی کبھی مالی، فوجی یا سیاسی امداد نہیں روکی۔ جرمنی اور ہالینڈ نے صدام کی حکومت کو کیمیائی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی اور مواد فراہم کیا۔ صدام نے ان کیمیائی ہتھیاروں کو عراق اور ایران کے عوام کے خلاف بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔
فرانس سمیت یورپی حکومتوں نے ماضی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایرانی عوام کے خلاف اہنے سیاہ ریکارڈ کے ساتھ ایک بار پھر ایران پر بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں اور اسلامی انقلاب کی فتح کے تقریباً پانچ عشروں کے بعد بھی ایرانوفوبیا کو فروغ دینے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔ ان میں سے ایک جھوٹ ایران کی طرف سے بیلسٹک میزائل روس کو بھیجنا اور یوکرین کی جنگ میں استعمال کرنا ہے، جبکہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کے پاس ایران کی جانب سے روس کو میزائل بھیجنے اور ان کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ہے، یورپی حکومتوں نے اس جھوٹی خبر کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ ایران کی ایئر لائن پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی اسی سمت میں قدم ہے۔ درحقیقت یورپی ممالک امریکہ کے ساتھ مل کر اس پرامن پروگرام کو فوجی نوعیت کا دکھا کر ایران کے خلاف سیاسی دباؤ اور اقتصادی پابندیاں تیز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یورپی حکومتیں واقعی مغربی ایشیا کے بحران زدہ خطے میں استحکام اور سلامتی کی خواہاں ہیں تو انہیں بے بنیاد الزامات لگانے کی پرانی پالیسی کو پس پشت ڈال کر باہمی احترام کی بنیاد پر ایران کے ساتھ مختلف شعبوں میں اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہوگا۔ جے سی پی او اے یعنی ایٹمی معاہدے کے دوران ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی معاہدوں کا پابند ہے، لیکن امریکہ سمیت مغربی ممالک نے اس معاہدے کے تناظر میں بھی اپنے کسی وعدے کو پورا نہیں کیا۔